حج کے اغراض و مقاصد


بسم الله الرحمن الرحيم
مسجد حرام کے خطبہ عید  الاضحى  کا اردو ترجمہ

بتاریخ: 10-12-1436ھ/24-9-2015ع

خطبہ وتحریر:  ڈاکٹرخالد الغامدی
امام وخطیب مسجد حرام



ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ

حج کے اغراض و مقاصد
پہلا خطبہ :
ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو بلند و بالا  اوربزرگ و بر تر ہے۔ جو ہرزمانہ  اور ہر حالت میں اپنی تمام نعمتوں اور نوازشات پر قابل تعریف ہے۔ جو پاک ذات  عزت ,عظمت اور جلال سے موصوف ہے ۔ ہم اس کے ثناخواں ہیں وہ پاک ذات ہے اور ہم صبح و شام اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ ہم اس کی عزت و قدرت سے شرک , شک اور گمراہی کی ظلمتوں سے پناہ طلب کرتے ہیں ۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اکیلا , یکتا اور بے نیاز ہے۔ اس کا کوئی ہمسر , ہم مثل اور ہم شبیہ نہیں ہے۔وہی  سچا اور حقیقی معبود ہے ۔ جس کے سامنے مخلوقات , آسمان , أشخاص اور سائے سجدہ ریز ہیں۔ جو اپنے بندوں پر غالب ہے اور جس کے سامنے گردنیں جھکی ہوئی ہیں۔ وہ قوی  اور سخت عذاب والا ہے ۔اسی نے مخلوق کو پیدا کیا جو دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئی ۔ ان میں سے ایک ہدایت یافتہ محبوب جبکہ دوسرا مبغوض اور گمراہ ہے۔ جس طرح اس نے پہلی بار اپنی مخلوق کو بنا کسی خرچ اور مشقت کے پیدا کیا اسی طرح وہ پاک ذات اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ ایسا کرنا اس کے اوپر زیادہ آسان ہے۔ اسی کی طرف واپسی اور پلٹ کے جانا ہے۔ 
       ہم گواہی دیتے ہیں کہ برگزیدہ نبی اور منتخب رسول محمد ﷺ  اس کے بندے اور رسول ہیں جو اچھی عادت و خصلت والے ہیں ۔ مخلوق میں سب سے افضل , متقی اور عادل ہیں۔ لھذا آپﷺ نہ حق سے  ہٹے اور نہ مائل ہوئے , آپ ہدایت دینے والی روشنی, عظیم سردار , روشن چراغ اور امت کو ہلاکت اور گمراہی سے بچانے والے ہیں ۔ اللہ نے آپﷺ کے ذریعہ نعمت  کامل کردی  اور  احسان عظیم کیا۔ اللہ عز وجل  نے آپﷺ کو فخر انبیاء , ان کا سردار , رسولوں کی شناخت اور ان کا امام بنایا ۔ آپ ﷺپر اللہ کی رحمت ہو جب تک پرندے اور کبوتر آواز کرتے ہیں , شب و روز گردش میں ہیں۔ اور اللہ کا فضل وکرم لگاتار جاری ہے۔ اللہ کی رحمت ہو آپ ﷺپر , آپ کے اہل خانہ پر جو سرداران اہل شرف و فضل ہیں اور آپ کی پاک شریف بیویوں پر , اور تمام نیک صحابہ کرام پر اور احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والوں پر اور تا قیامت بہت زیادہ سلامتی ہو ۔
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر,  لاالہ الا اللہ ,و  اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , وللہ الحمد ...
اللہ اکبر حاجیوں کے تلبیہ , تہلیل اور تکبیر کی تعداد کے برابر , اللہ اکبر ان لوگوں کی تعداد کے برابر جنہوں نے توحید کے ساتھ اللہ کے لئے احرام باندھا اور اسلام لائے , اللہ اکبر جب تک عیدوں کے عید کی صبح روشن و نمودار ہو , اللہ اکبر مجید عرش کے وزن کے برابر۔ اللہ کے محمود کلمات کی روشنائی کے برابر اور اس کے نفس کی رضا مندی کے برابر , اور وہ ہر چیز پر  شاہد ہے   ۔اللہ اکبر بطور نور  اور خوشخبری کے لیے پیدا کرنے اور حکم دینے کی تعداد کے برابر ۔اللہ اکبر جب تک  آوازیں اللہ کی تکبیر اور ذکر میں بلند ہوتی ہیں , اللہ اکبر جب تک  زمانہ اور زندگی میں عیدیں مسلسل جاری ہیں ۔
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ کبر , لا الہ الا اللہ , اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , وللہ الحمد ...
اما بعد :
اللہ کی حرمت والے گھر کے حاجیو : میں اپنی ذات کو  اور آپ کو خفیہ و علانیہ نیز  صبح و شام اللہ کا تقوی اختیار کرنے  کی نصیحت کرتا ہوں , کیونکہ وہی زندگی کی تاریکیوں اور اس کے راستوں میں , اقدار اور اس کی خوفناکیوں کے میدان میں ,مصیبتوں , غموں کی ذلت اور اس کی تکلیفوں میں  سب سے بڑا توشہ اور سب سے مکرم گھاٹ ہے اور سب سے کامل روشنی ہے ۔
اسلامی امت : اللہ کی حرمت والے گھر کے حاجیو : آج کے دن جو اکبر عید اور اعظم حج کا دن ہے اور تم ایک  عظیم  شاہ کے مہمان ہو لھذا تم سے اکرم آج کے دن کون ہے ؟             آج کے دن شرف و فخر میں تم سے مقابلہ کرنے والا  اور تم پر غلبہ پانے والا کون ہے اس حال میں کہ تم اللہ کے جلیل وفد  اور اس کے پرانے گھر کے حاجی ہو ؟ اس نے تم کو بلایا تو تم نے اس کی دعوت کو قبول کیا ۔ اس نے تمہارے دلوں میں اپنے پا س آمد کے لئے حرکت پیدا کی لھذا تم ہر دور دراز مقام او ر راہ سے اس کے پاس جماعت کی شکل میں اور تنہا تشریف لائے ۔تم نے  ابراہیم خلیل کی زبان  سے ادا ہوئےعظیم  الہی پکار پر لبیک کہا , چنانچہ آپ حضرات کا رحیم و کریم رب کے بارے میں کیا خیال ہے ؟  آپ کی کیا توقع ہے فیاض محسن شاہ سے جس کے ہاتھ میں خیرات کے خزانے, اس             کی  مہریں,  رحمتوں کے کنوز اور اس کی پوشاکیں ہے ۔ وہ آپ حضرات کو صرف اس لئے اپنے حرمت والے گھر لیکر آیا ہے تاکہ آپ کی تکریم کرے ۔ اپنی معافی و فضل کو آپ پر کامل کردے۔ اس نے آپ کے عزائم کو مہمیز کیا ہے ۔ اپنے گھر کے حج کے لئے آپ کے شوق کو دوبالا کیاہے , اور شعائر و مشاعر تک پہونچنے میں آپ مدد کی ہے تاکہ وہ آپ کو اپنی اچھی فضل ورحمت دکھلائے ۔ اسی وجہ سے  جو کچھ بھی آپ کو تکلیف , پریشانی اور مشقت ہوتی ہے۔یا جب بھی آپ کسی وادی میں اترتے ہیں یا کسی بلند جگہ پر چڑھتے ہیں ۔ جب بھی آپ کم یا  زیادہ کچھ بھی خرچ کرتے ہیں۔ جب بھی آپ اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ۔ تلبیہ اور تکبیر کی وجہ سے آپ کی آوازیں بیٹھ جاتی ہیں اور جب بھی آپ اپنے کو تھکاتے ہیں تو یہ سب کے سب آپ کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے۔مبرور حج کا ثواب تو صرف جنت ہے ۔ اور جس نے بھی حج کیا , اور دوران حج شہوانی فعل سے دور رہا۔ فسق  و فجور سے بچا۔ تو وہ اپنے گناہوں سے اسی طرح پاک و صاف ہو جاتا ہے جس طرح وہ اپنی ولادت کے دن تھا۔جیسا پیارے نبی سے ثابت ہے۔ کیا آپ کو اس عظیم حدیث کی خبر ملی  جس کو سن کے دل مارے خوشی ومسرت کے حرکت کرنے لگتے ہیں , لھذا یہ روحوں اور نفسوں کے لئے حدی خوان ہے , دلوں اور جسموں کو خوش کرنے والا ہے , بلاشبہ وہ عظیم شاندار حدیث ہے جس کو طبرانی وغیرہ نے حسن سند سے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : تمہارا اپنے گھر سے اللہ کی حرمت والے گھر کے قصد و ارادہ سے نکلنے پر اللہ تعالی تمہاری سواری کے ہر پاؤں کے بدلہ میں تم کو ایک نیکی عطا کرتا ہے اور ایک گناہ مٹاتا ہے , جبکہ عرفہ میں تمہارا وقوف کرنا تو اس دن اللہ تعالی آسمانی دنیا کی طرف نازل ہوتا ہے اور تم لوگوں سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے :  یہ میرے بندے ہیں جو ہر دور دراز راہ  سےپراگندہ حال اور غبار آلود ہوکر آئے ہیں , انہیں میری رحمت کی امید ہے۔ ان کو میرے عذاب کا ڈر ہے حالانکہ انہوں نے مجھ کو دیکھا نہیں ہے۔ اوراگر وہ مجھے دیکھ لیں تو پھر ان کا کیا حال ہوگا ؟ اب اگر تمہارے اوپر    بالو کے ڈھیر , دنیاوی دنوں یا آسمانی قطرات کے مثل گناہ ہو تو اللہ تعالی ان سب کو تم سے دھو دیگا ۔ تمہارا جمرات کو کنکریاں مارنا تو یہ تمہارے لئے ذخیرہ کرکے رکھا جاتا ہے۔ تمہارا اپنے سر کو منڈانا تو اس کی وجہ سے ہرگرنے والے بال کے بدلہ میں ایک نیکی ملتی ہے , اور جب تم نے بیت اللہ کا طواف کر لیا تو تم اپنے گناہوں سے اسی طرح سے پاک و صاف ہو گئے جس طرح اپنی پیدائش کے دن تھے ۔
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , لا الہ الا اللہ , واللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر  , وللہ الحمد ...
اے امت اسلامیہ : جان لیجیئے کہ حج فرض کرنے کا سب سے بڑا مقصد اور قاعدہ اللہ کے لئے خالص وحدانیت , شرک سے برأت اور چھٹکارے کا اعلان ہے , اللہ تعالی کا فرمان ہے : اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن تمام لوگوں کے لئے اطلاع عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری الذمہ ہے ( توبہ / ۳ ) , حج کی مکمل عبادت ہی توحید کی دلیل و برہان ہے , چنانچہ ایک حاجی احرام باندھتے ہی تلبیہ , تکبیر , طواف , سعی , رمی جمرات , وقوف عرفہ , مزدلفہ اور منی وغیرہ میں توحید کا اعلان و احساس کرنے لگتا ہے , چنانچہ حج کے دنوں میں لوگوں کی تربیت قولی , عملی اور ارادی  طور پر توحید پر ہوتی ہے , یہاں  تک وہ اسی طرح ہوجاتے ہیں جس طرح اس آیت میں وارد ہوا ہے: یکسو ہو کر اللہ کے بندے بنو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گرگیا ۔ اب یا تو اسےپرندے  اچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی(حج/31)
      طواف , سعی رمی جمرات تو اللہ کے ذکر کو قائم کرنے اور اس کے حکم کو مطلق طور پر تسلیم کرنے  و  ماننے کے لئے مشروع کیا گیا ہے , تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس سے غائبانہ طور پر خوف کھاتا ہے۔ اس کے احکام بجا لاتا ہے۔اور تاکہ یہ ظاہر ہو جائے کہ کون اللہ سے راضی نہیں ہے ۔ اس کی بات نہیں مانتا ہے ۔اور وہ اپنے شکوک و سرکشی میں بھٹک رہا ہے۔ بیشک توحید  سب سے زیادہ حج میں ظاہر و نمایاں ہوتی ہے ۔جہاں  ہر دور دراز جگہ سے  آکے امت توحید آپس میں ملتی ہے۔ اور اس کی تاکید کرتی ہے کہ توحید ہی مشرق سے مغرب تک تمام امت کا عقیدہ ہے , اور وہی اللہ کا دین ہے جس کو نبی کریم ﷺ نے اچھی طرح سے ادا کیا , آپ کے بعد آپ کے صحابہ کرام نے اس کی نشر و اشاعت کی , اور جن کے طریقہ پر بڑے ائمہ اسلام مثلا : امام ابوحنیفہ نعمان , امام مالک بن انس , امام محمد بن ادریس شافعی , امام احمد بن حنبل , امام بخاری وغیرہ اور دوسرے مشہو ر اور نامی گرامی  امام مختلف زمانوں میں عمل پیرا رہے ۔ بیشک یہ ایک واضح نقصان ہے کہ ایک حاجی توحید سے پُر ان مشاعر اور شعائر کو تشریف لاتا ہے اور پھر شرک کا ارتکاب کرتا ہے , لھذا وہ اللہ کے علاوہ سے سوال کرتا ہے , یا اللہ کے دین میں بدعت کرتا ہے اور اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے کہ کیا اس کا حج خالص اللہ کے لئے ہے یا دکھاوا اور شہرت کے لئے ہے یا محمد ﷺ کے طریقہ کے علاوہ  کسی دوسرے کے طریقہ پر  ہے ؟ یا اس میں شرک , تعریف و ثناء کی محبت اور عمل پر فخر کرنے کی گندگیاں شامل ہیں  تاکہ اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جائے۔
چنانچہ اے بیت اللہ کے حاجیو ! اللہ سے خوف کھاؤ اور جان لو کہ اللہ کے لئے توحید اور اخلاص ہی تمام عمل کی روح اور اس کے صحیح ہونے کی بنیاد ہے , لھذا اپنے عملوں کو شرک , اس کے وسائل و ذرائع , دکھاوا اور اس کے طریقوں, شہرت , تعریف و ثناء کی محبت سے خراب نہ کرو کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے :  میں  تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرک سے بے نیاز ہوں ۔ جس نے کسی بھی عمل میں میرے ساتھ میرے علاوہ کو شریک کیا تو میں نے اس کو اور اس کے شرک کو چھوڑ دیا۔
فاللہ  
بیت اللہ الحرام کے حاجیو : یقینا نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں بعثت کے بعد صرف ایک حج ادا کیا تھا ۔ چنانچہ یہ حج بہت ہی شاندار اور عظیم الشان تھا ۔ اس میں اتنی زیادہ عبرتیں , دلائل , تشریع , حکمتیں اور مقاصد ہیں جن کو آسانی سے شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہیں میں سے عرفات اور پھر منی میں دیا گیا آپ کا ممتاز  بلیغ  و عظیم خطبہ بھی ہے جس میں آپ نے اسلامی قواعد , اخلاقی اصول اور باہمی زندگی گزارنے کے شاندار اقدار و روایات کو بیان کیا۔یہ شاندار نبوی کلمات اس لایق ہیں کہ وہ       اسلام میں انسانی حقوق, بلند اخلاقی اقدار اور بقاء باہم کی سب سے پرانی تاریخی دستاویز ہوں۔ تمام مسلمان اس بات کے حقدار ہیں کہ وہ اس پر فخر کریں اور ان قوموں پر فخر کریں جن کا خیال ہے کہ وہ ان حقوق کو طے کرنے میں سبقت لے گئے ہیں , جبکہ وہ در حقیقت اور اپنی عملی  زندگی میں ان  میں سے اکثر سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور ہیں ۔ بلاشبہ نبی رحمت نے اپنے عرفات پھر منی کے خطبہ میں معصوم خونوں , مال ودولت  اور  عزت کی حرمت کی تاکید کردی ۔ اور  اس بات کی بھی تاکید کردی کہ مسلمانوں کا خون , ان کی مال و دولت اور عزت آپس میں برابر ہے۔ یہ سب حرام مہینہ میں حرمت والے شھر یعنی مکہ کی طرح حرام ہیں ۔ اسی طرح پیارے نبی نے مساوات اور عدل کے اصول کو طے کردیا  اور یہ بتلایا کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں جن کے حقوق برابر ہیں۔ ان میں سے کسی کو  کسی دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں ہے مگر صرف تقوی سے۔ پیارے نبی ﷺنے اس بات پر بھی زور دیا  کہ شرک , تعصب , حسب ونسب پر فخر وغیرہ غرضیکہ جاہلیت کی شناخت والی تمام چیزیں ناقابل قبول اور باطل ہیں ۔ اور  باطل زمانہ جاہلیت کا سب بڑا  شعارسود  ہے جو  ایک قبیح  کبیرہ گناہ ہے ۔جو ہرخیر و برکت کو مٹانے والا ہے , جو اقتصاد, زندگی اور اخلاق کو بگاڑنے والاہے۔ اسی طرح نبی ﷺ نے حقوق نسواں کے بارے میں سختی سے تاکید کی ۔ عورتوں پر ظلم و جارحیت سے خبردار کیا کیونکہ وہ کمزور اور کم تدبیر والی  ہوتی ہیں۔اور  اپنی امت کو عورتوں کے بارے میں زبردست وصیت کی اور یہ کہ لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ سے خوف کھائیں۔ آپ ﷺ کے مقرر کردہ اصولوں  میں سے ایک یہ ہے کہ گمراہی اور ضلالت سے بچانے والی چیز قرآن و حدیث کو مضبوطی سے پکڑنا ہے ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا : میں نے تمہارے اندر ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم نے اس کو مضبوطی پکڑا تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے وہ اللہ کی کتاب اور میری سنت ہے , اور حج کے تمام مقامات پر اس کی تاکید کی کیونکہ آپ ﷺبار بار یہ جملہ دہراتے تھے کہ مجھ سے اپنے حج کے اعمال و ارکان سیکھ لو ۔
چنانچہ یہ کتنے عظیم اصول و ضوابط , قوانین , حقوق و آداب ہیں جن کو سب سے عظیم نبی نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں حاجیوں کے سامنے پہلے عرفات پھر منی کی  بڑی مجلسوں میں بیان کیا اور اس کو مضبوط و ثابت کردیا تاکہ یہ ہر حالت میں امت کے لئے فانوس,  ہدایت , تہذیب و تمدن اور ترقی کا مشعل ہوں ۔
فاللہ اکبر اللہ اکبر اللہ  لا الہ الا اللہ , اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , وللہ الحمد ...
اسلامی امت : حاجیوں کی جماعت : یقینا حج میں خیرہ کن نشانیان اور بالغ عبرتیں ہیں جس نے اگلے اور پچھلے زمانے میں عقلمندوں اور دانشمندوں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ اس دین کی جلالت, اس کے احکام کی عظمت اور اس کے قوانین و آئین کی خوبیوں سے پردہ ہٹا یا ۔ بلاشبہ وہی اس زمین پر اللہ کا دین ہے , فرمان الہی ہے :  جو  شخص اسلام کے علاوہ اور کوئی دین  تلاش کرے تو اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا۔ اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔(آل عمران/85)۔ 
چنانچہ حج میں  بلند معانی, بالا آداب اور زندگی کے ہر احوال میں منضبط طریقہ اور منہج پر نفسوں اور دلوں کا تزکیہ ہے۔ سلوک و اخلاق کی تہذیب ہے ۔ عقلوں اور اعضاء کی تربیت ہے۔ کیونکہ حج میں لوگوں کو سکون , اطمینان , انتظار , جلد بازی نہ کرے , غصہ اور ناعاقبت اندیشانہ سرعت سے بچنے و دور رہنے کے اخلاق کی عادت پیدا ہوتی ہے۔ جبکہ جلد بازی  انسانی طبیعت ہے , ارشاد خدا وندی ہے : انسان جلد باز مخلوق ہے ( انبیاء /۳۷) اور دوسری آیت میں ہے : انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے ( اسراء / ۱۱) وہ عجلت پسندی جو کم عقلی , انجام میں غور فکر نہ کرنے اور زمانہ حال و مستقبل میں زیادہ صحیح و مناسب کی رعایت نہ کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ بلاشبہ سکون و اطمینان کی عادت حج کے بہت سارے مقامات مثلا  بیت اللہ کا طواف کرنا , عرفات و مزدلفہ سے واپسی , رمی جمرات , تشریق کی راتوں میں منی میں رات گزارنی  وغیرہ میں ظاہر ہوتی ہے ۔ اور نبی کریم ﷺ اپنی مشہور بات ہر وقت دہراتے رہتے تھے کہ اے اللہ کے بندوں سکون لازم پکڑو۔ سکون و اطمینان لازم پکڑو۔ ابو عوانہ نے یہ حدیث صحیح سند سے روایت کی ہے ۔
اور آپ ﷺ فرماتے تھے :  اے لوگوں سکون و وقار لازم پکڑو کیونکہ نیکی اونٹوں کو جلدی بھگانے میں نہیں ہے ۔ یہ روایت احمد و نسائی  کی ہے۔
 بندگاں الہی : اسی طرح حج میں لوگوں کی  اللہ اور اس کے رسول کے سامنے خود سپردگی ,  ہر چیز میں پیارے نبی ﷺ کی سنت کی اتباع پر نفس کو شدت و قوت سے مجبور کرنے, اور نصوص پر اعتراض کرنے اور اس کو عقل , خواہشات نفس اور ذاتی مفادات کی وجہ سے رد کرنے سے مکمل دوری پر تربیت ہوتی ہے , کیونکہ حج کا شعار و علامت جو ہر جگہ بار بار آتا ہے وہ  یہ ہے کہ مجھ سے اپنے ارکان و اعمال حج سیکھ لو ۔جس میں آوارہ نفسوں اور اپنی رایوں پر اترانے  والی عقلوں کو سدھارا جاتا ہے کہ وہ نص  قرآن و حدیث کی اتباع کریں ۔ اسی کےمطیع و  تابع ہوں کیونکہ وہی وہ سلامتی ہے جس کے برابر اور کوئی چیز نہیں ہے ۔
اسی طرح حج لوگوں کو تعلیم , احکام , زمانہ اور جگہ کے بارے میں ترتیب  ونظام کی ٹریننگ دیتا  ہے۔ نظام اور ترتیب ایک ایسی صفت ہے جو ایک باشعور , ترقی یافتہ مسلمان کا پتہ دیتی ہے جو اپنے دین اور شریعت سے روشنی حاصل کرتا ہے۔ ہنگامہ , بد نظمی سے دور رہتا ہے جس کا فرد و سماج پر بہت ہی برا اثر ہوتا ہے ۔اسی وجہ سے اگر ہم شریعت  کے تمام احکام پر نظر دوڑاتے ہیں جن میں حج بھی ہے تو ہم یہ پائیں گے کہ وہ سب کے سب حیرت انگیز ترتیب اورباریک  نظام کی ٹھوس بنیاد پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں جو امت  کے لیے اپنے کو شریعت کے احکام کے مطابق  ڈھال لینے پر مدد گار ہے ۔جس سے  یہ امت شرعی ذمہ داریوں کے اٹھانے پر  قادر ہوجاتی ہے خواہ عادات اور حالات کتنا بھی بدل جائیں۔ انسانی نفوس ہر نئی پیش آنے والی چیز اور ناگہانی کے لئے پابند اور تیار ہوجاتے ہیں جس سے ان کی زندگی  منظم ہوجاتی ہے۔ ان کو بد نظمی اوربنا سوچے سمجھے کام کرنے سے  چھٹکارا مل جاتا ہے جو کوششوں اور محنتوں کو ملیامیٹ کر دیتی ہیں اور نفع بخش طاقتوں کو بکھیر دیتی ہیں جس سے اس کی تہذیب اور ترقی کا کارواں پیچھے رہ جاتا ہے ۔
یقینا حج میں لوگوں کی  یہ زبردست بھیڑ جو ایک ہی وقت اور ایک ہی جگہ میں اپنی عبادت ادا کرتی ہے اگر اسے نظام اور ارکان و اعمال کی ادائیگی میں پابندی , نظم و ضبط کی اہمیت کا شعور و احساس ہے تو اس کے نتیجہ میں اسے امن وامان , سکون و اطمینان کا پھل حاصل ہوگا جو بڑے شرعی مطالب میں سے ہے۔ کیونکہ کوئی بھی مسلمان امن و امان کے بغیر اپنی  عبادت حج  کو راحت , سکون و اطمینان کے ساتھ ہرگز نہیں ادا کر سکتا ہے۔ ہم اللہ تعالی کی تعریف اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے حج میں حاجیوں کے اوپر اپنی فضل و رحمت سے  امن و امان کیا ۔ پھر اس بابرکت ملک کے مخلص  قائدین اور سیکورٹی فورسز کی  کوششوں سے جو حاجیوں کی راحت اور ان کے امن کی نگرانی کرتے ہیں ۔ اور ہر اس شخص کے ہاتھ پر وار کرتے  ہیں جس کے لئے اس کا نفس بگاڑ , فساد اور بد نظمی کو مزین کر دیتا ہے۔ یقیناخادم حرمین شریفین –اللہ ان کو توفیق دے- اور ان کی حکومت کی اہم ترجیحات میں سےحرمین شریفین, حاجیوں وعمرہ کرنے والوں کی رعایت و نگہداشت ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی تمام  تر امکانیات اور پوری طاقت حاجیوں کی راحت رسانی, ان کے ارکان و اعمال حج کی ادائیگی میں سہولت بہم پہونچانے  اور حرمین شریفین کے امن وامان کی حفاظت میں لگا دی ہے۔ اور یہ ان عظیم اعمال میں سے ہے جن کا آج کی عید کی صبح میں ذکر کیا جانا چاہیئے ۔اس کی تعریف ہونی چاہیئے اور اس کو پھیلانا چاہیئے کیونکہ جس نے لوگوں کا شکریہ نہیں ادا کیا اس نے اللہ کا شکریہ نہیں ادا کیا ۔
فاللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ,لا الہ الا اللہ , اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , وللہ الحمد ...
 امت اسلامیہ : حج میں اسلام کی عالمیت , اس کی جامعیت اور انسانیت کی قیادت و رہنمائی پر اس کی قدرت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ وہ اسلامی عالمیت ہے جو عدل , مساوات اور اخوت پر قائم ہے ۔ یہ شر ,بگاڑ اور فساد پیدا کرنے کی عالمیت نہیں ہے , کیونکہ یہ  حجاج کرام ہرسال بہت بڑی تعداد میں دنیا کے ہر کونہ و گوشہ سے آتے ہیں , جو مختلف  قومیتوں , رنگوں اور طبقات کے ہوتے ہیں ۔یہ ایک بارعب ,پر ہیبت و جاذب نظر منظر ہوتا ہے جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ہے اور نہ ہی دیگر امتوں کے پاس اس کا کوئی مثیل  ہے ۔جن کو ایک دین , ایک نبی, ایک بلند رسالت اور مشترک مسائل و مصائب نے جمع کیا ہے ۔ اور یہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اسلام  ہی وہ آخری عالمی دین ہے جو تمام انسانیت کو ایک کرنے والی اور جمع کرنے والی ہے , اللہ تعالی کا فرمان ہے :بیشک دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے(    آل عمران/19       ) ایک دوسری ىیت میں ہے: نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان یعنی قرآن نازل کیا تاکہ وہ دنیا کو ڈرانے ولا ہوجائے(فرقان/1)۔
دین اسلام کے اس عالمیت کی تاکید یہ آیت بھی کرتی ہے جو مکہ میں دعوت کے شروع مرحلہ میں نازل ہوئی ۔ اور جس کی بشارت نبی ﷺ نے مکہ میں کمزوری کے دور میں تاریک ترین حالات اور مشکل ترین مواقع میں دی, اور جنگ خندق میں اس وقت آپ نے یہ خوشخبری سنائی  جب  تمام عرب  مل کر ایک ساتھ نبی ﷺ پر حملہ  آور ہوئے۔ اور دوسرے مواقف میں بھی آپ ﷺ نے یہ بشارت دی ۔یہ تمام  ہی چیزیں  بیان اور تاکید کرتی ہیں کہ اسلام وہاں تک پہونچے گا جہاں تک رات و دن ہوتی ہے۔ ہر شہر و دیہات میں داخل ہوگا ۔ربانی تدبیر اور الہی سلطنت  سے ہر گوشہ اور ناحیہ میں پھیل جائے گا۔ زمین کی کوئی بھی طاقت اس کے سامنے نہیں ٹہر سکتی ہے خواہ اس کی قوت اور تہذیب کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔ بیشک اس بات کی  بہت زیادہ اور مختلف دلیلیں ہیں کہ یہ دین اللہ کے حکم سے مؤید اور منصور ہے ۔ اللہ تعالی اس بابرکت امت محمدﷺ کی امت کے ساتھ ہے اس کی حمایت کرتا ہے۔ اس کی طرف سے مدافعت کرتا ہےاور اس کی مدد کرتا ہے۔کیونکہ یہ امت اس  کے نزدیک دنیا کی سب سے مکرم و مشرف امت ہے ۔
اگر اس نے اس کی شریعت کو قائم کیا اوراس کے   طریقہ پر چلا تو اس کے لئے غلبہ , فتح اور اقتدار  ہے۔ اور اللہ کا اس سے وعدہ ہے کہ کوئی بھی دشمن اس امت پر اس طرح غالب نہیں ہوگا کہ اس کو جڑ سے اکھاڑ  پھینکے ۔ ہلاک و برباد کردے , اور یہ کہ اللہ تعالی اس کو بھکمری اور عام قحط سے تباہ نہیں کرے گا ۔
فاللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ,لا الہ الا اللہ , واللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , وللہ الحمد ...
اسلامی امت : یقینا امت محمدیہ آج کل ایک عجیب , دردناک استثنائی زمانہ سے گزر رہی ہے۔ ایک ایسا زمانہ جو دشمنوں کے اس امت پر ظلم ,تسلط اور کھلم کھلادشمنی  سے لبریز ہے۔ جس کے بارے میں پیارے نبی ﷺ نے خبر دی ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئیگا جس میں یہ امت جھاگ کی طرح ہوجائیگی اور اس  کے اوپر دیگر قومیں ٹوٹ پڑیں گی ۔ اسی وجہ سے  آج اس امت میں اتحاد و اتفاق نہیں ہے۔ اس کی کوششیں منتشر ہیں ۔ اور یہ امت اپنی عزت کے ذرائع و وسائل سے دور ہوگئی ہے چنانچہ دشمنوں کی حرص و طمع کا شکار ہوگئی ہے ,اس کے اوپر انتہائی سخت قسم کی فکری , ثقافتی اور فوجی جنگ مسلط کردی گئی ہے۔اور اسے سرکش مجرموں نے نہایت قبیح و خوفناک قتل , بربادی اور ہلاکت کی سزا دی ہے ۔لھذا جو کچھ ہم بیت المقدس اور اس کے اطراف  میں دیکھ وسن رہے ہیں اور جو کچھ غاصبوں کے ذریعہ مسجد اقصی شریف کے حرمت کی پامالی  اور اس پر جارحیت کی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک میں جو کچھ ہورہا ہے ان سے دل زخمی ہو جاتا ہے اور قلب رنج و غم سے پگھل جاتا ہے ۔
عالم یہ ہے کہ مسلمانوں کی کمزوری اور ذلت کے سایہ میں پاک خونوں کو بہایا جارہا ہے , بچوں اور عورتوں کو بے گھر کیا جارہا ہے , مکر , سازش, جارحیت اور وحشیت کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی اداروں اور بین الأقوامی حقوقی تنظیموں کی طرف سے مشکوک خاموشی  رسوائی اور ذلت کا مقام ہے۔ یقین مانیے کہ اگر یہ مکر , جارحیت , عظیم سازش قتل اور تباہی و بربادی پہاڑوں پر نازل ہوتی تو اس کو اس کی جگہ سے ہٹا دیتی اور اگر امت محمدیہ کے علاوہ کسی اور امت پر انڈیلی جاتی تو اس امت کا نام و نشان مٹ جاتا ۔صرف تاریخ کے اوراق میں اس کا ذکر باقی رہ جاتا۔لیکن یہ محمد ﷺ کی امت  امت اسلام ہے جو سب سے بڑی اور اللہ کو سب سے زیادہ محبوب امت ہے ۔ اللہ نے اس امت میں بقاء اور دائمیت  کے عوامل رکھا ہے , اور یہ خوش خبری دی ہے کہ یہ قابل رحم اور قابل مدد  امت ہے  خواہ دشمن کتنا ہی تدبیر کرے۔ مکر و سازش رچے۔ قتل کرے اور لوگوں کو بے گھر بار کرے ۔حرمتوں , مقدسات اور عزتوں کو پامال کرے۔اور جو کچھ بھی اس کے ساتھ درپیش آیا ہے وہ دراصل آزمائش , امتحان اور صفوں میں تمییز پیدا کرنا اور چھانٹنا ہے تاکہ یہ امت دوبارہ اپنے رب و دین کی طرف لوٹ آئے اور اس کے سامنے توبہ کرے ۔
بلا شبہ امت کے مجد وعظمت اور اس کے سلطنت واقتدار کی واپسی کی خوشخبریاں ہردن زیادہ ہورہی ہیں۔ اور تمام واقعات میں اس کے نشان راہ واضح ہورہے ہیں, ارشاد باری تعالے ہے: دل شکستہ نہ ہو, غم نہ کرو تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو۔ اگر تم زخمی ہوئے ہوتو تمھارے مخالف لوگ بھی ایسے ہی زخمی ہوئے ہیں, ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں, (شکست احد) اس لیے تھی کہ اللہ تعالى ایمان والوں کو جان لے اور تم میں سے بعض کو شہادات کا درجہ عطافرمائے ۔اللہ تعالى ظالموں کو پسند نہیں کرتاہے۔ (یہ وجہ بھی تھی) کہ اللہ تعالی ایمان والوں کو بالکل الگ کردے اور کا فروں کو مٹادے (آل عمران /139-141)
ایک عربی شاعر کہتا ہے :
ہم ایک ایسی امت ہیں جس کو اس کے دین نے تمام مخلوقات کے اوپر مرتبہ عطا کیاہے۔
اس کے تارے کی روشنی دائمی ہے اگر وہ کچھ دیر کے لیے بجھ جائے  لیکن وہ ہمیشہ کے لیے ہرگز نہیں غروب ہوگا۔
یقینا وہ اسلام ایک محکم وٹھوس دین ہے اللہ اس کے بدیل سے ہرگز راضی نہیں ہوگا۔
 اس کاکل سے لیکر آج تک پھیلاؤا ور انتشار چیلنج کے ساتھ مستقبل کی تعمیر کرتاہے۔
دنیا کے لیے فجر کا طلوع نمو دار ہو گیا ہے جس کی روشنی سے رات نے خوف کے مارے  پیٹھ پھیر لیا ہے۔
بیشک اس محمد امت کو جڑسے اکھاڑا نہیں جاسکتا ہے ۔ اس کی تازگی کو ہلاک وبرباد نہیں کیا جاسکتا ہے خواہ اس کے ساتھ دشمن اور مجرم کچھ بھی کریں۔ خواہ اس  کے اوپر کتنے ہی  اپنے سوار اور پیادے چڑھا لائیں,گر چہ اس کے خلاف پوری دنیا کے لوگ جمع ہو جائیں۔ بلکہ اللہ تعالے اس  امت کا اپنی رحمت اور  لطف سے تدارک کریگا اور اپنی فتح وحمایت سے اس کی مدد کرے گا۔ اور اس کو دوبارہ دشمنوں پر غلبہ دیگا اور ایک بار پھر اس کو دیگر  امتوں کا قائد وسردار بنائے گا۔ فرمان الھی ہے: یہ لوگ اللہ تعالى کی روشنی کو اپنی  پھونکوں سے بجھادینا چاہتے ہیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے گوکافروں کو یہ ناگوارر ہے۔ وہی وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاہے تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کردے گرچہ مشرکوں کو یہ نا پسند ہے (توبہ/32-33) ۔
فاللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ,لا الہ الا اللہ ,و اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , وللہ الحمد ...
 اللہ عز وجل میرے اورآپ کے لیے قرآن و سنت میں برکت عطا فرمائے۔اور ان دونوں میں موجود آیتوں , ذکر اور حکمت کو ہمارے لیے نفع بخش بنائے۔ جو بات میں نے کہی ہے وہ آپ نے سماعت فرمائی اب اگر وہ حق ہے تو اللہ کی توفیق سے ہے جو اکیلا  اور بے شریک ہے۔اور اگر اس کے علاوہ ہے تو میں اللہ سے اپنے لیے, آپ کے لیےاور تمام مسلمانوں کے لیے ہر قسم کے گناہ سے مغفرت کا خواہاں ہوں ۔ لہذا آپ سب بھی اسی سے مغفرت طلب کیجیے بلاشبہ وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
ہر قسم کی ستائش اللہ ہی کے لیے ہے جیساکہ اس کے چہرہ کے جلال اور اس کی عظیم سلطنت کےشایان شان  ہے۔  اس کے اچھے فضل وبہترین احسان پر اسی کا شکرہے۔ میں دورود وسلام بھیجتاہوں اس پر جو پوری دنیا کے لیے ہدایت ورحمت بناکے مبعوث کیے گئےہیں۔ اسی وجہ سے اللہ نے آپ کی اطاعت ہمارے اوپر آپ کے شان کی تعظیم میں واجب کی ہے۔ اور آپ ﷺکے اہل وعیال پر اور آپﷺ کے صحابیوں پر اور آپ ﷺکے بھائیوں پر ۔
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ,لا الہ الا اللہ , واللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , وللہ الحمد ...
بیت اللہ الحرام کے حاجیوں:
یہی  بڑے حج کادن  ہےجو اسلام کی سب سے بڑی عید اور اللہ کے نزدیک دنیا کاسب سے افضل دن ہے۔ اس دن میں حج کے اکثر وبیشر اعمال جمع ہوگئے ہیں مثال کے طور پر بڑے جمرہ کی رمی کرنا, قربانی کرنا, سرمنڈانا یا بال کٹوانا, سرمنڈا ناافضل اور بہتر ہے,  پرانے گھر کا طواف کرنا وغیرہ۔
بعد ازاں حاجی منى لوٹ جائیگا تا کہ وہاں جمرات کو کنکریاں مارے۔ اللہ کی نعمت, آسانی اور رحمت پر خوشی اور مسرت مناتے ہوئے ذکر, تکبیر, تعظیم اور خور دونوش کے ساتھ تشریق کی راتوں کو گذارے۔ اور یقینی طور پر آج کے دن ھدی اور قربانی کو ذبح کرکے خون بہانا عظیم قربتوں  میں سے ہے جو اللہ کو محبوب ہے, کیونکہ افضل حج تکبیر کہنا اور ذبح  کرنا ہے جیسا  نبی کریم ﷺسے   ثابت ہے۔ قربانی کرنا ابراہیمی اور محمدی سنت ہے۔ قادر شخص کے  لیے اس میں کو تاہی برتنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اللہ کےنزدیک اس کا مرتبہ بہت بڑا ہے۔ قربانی میں سنت یہ ہے کہ بھیڑ میں 6 مہینے , بکری میں ایک سال, گائے میں دو سال اور اونٹ میں پانچ سال والے جانورکی قربانی کرے۔ بکری یا گائے یا اونٹ کی ان تینوں قسموں کے علاوہ اور کسی جانو کا ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ قربانی کا جانور ان تمام عیوب سے خالی ہو جن کے بارے میں نبی نے  متنبہ کردیا ہے,  لھذا اسے لولا لنگڑا, بیمار, دبلا پتلا  اور کانا نہیں ہونا چاہیے ۔ قربانی عید کے نماز کے بعد کی جائے گی, اور جس نے قربانی عید کی نماز سےپہلے کی تو اسے اس کی جگہ ایک دوسرا جانور ذبح کرنا ہوگا, سنت یہ ہے کہ وہ خود اس سے کھائے اور کچھ حصہ ہدیہ دے اور اگر چاہے تو کچھ صدقہ بھی کردے۔ چنانچہ صحیح سالم , موٹی تازی  اور ہنسی خوشی اپنی قربانیوں کو ذبح کرکے اللہ کی قربت حاصل کرو۔اور جان لو کہ آدم کے دونوں بیٹوں نے اللہ سے قربت کے لئے قربانی پیش کی, لیکن ان میں سےپہلے نے کمزور ,دبلے پتلے  اور کم قیمت والے جانور کی نا پسندیدگی اورنفرت کے ساتھ قربانی پیش کی جبکہ دوسرے نے اچھی ,صحیح وسالم  اور بہترین جانور کی ہنسی خوشی,شرح صدر اور مکمل تو جہ کے ساتھ قربانی پیش کی, لھذا اللہ نے اس کی قربانی قبول کرلی اور دوسرے کی نہیں قبول کی کیونکہ اللہ اہل تقوى سے قبول فرماتاہے۔
فاللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ,لا الہ الا اللہ ,و اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , وللہ الحمد ...
اللہ کی حرمت والے گھرکے حاجیو:
بلا شبہ مشرکوں کی مخالفت کرنا حج کے مقاصدمیں سے ایک بہت بڑا مقصد ہے, اسی وجہ سے آپ ﷺنے عرفہ میں وقوف کیا جبکہ مشرکین قریش مزدلفہ سے آگے  نہیں بڑھتے تھے۔ عرب زمانہ جاہلیت میں حج اور تشریق کے دنوں میں باپ دادا کے کارناموں پر آپسی مفاخرت  اور باہمی فخر کی مجلسیں منعقد کیا کرتے تھے۔جن میں وہ ان کے حسب و نسب پر فخر کرتے ہوئے اشعار پڑھتے تھے۔ ان میں سے اکثر تو تشریق کی راتوں میں خواہشات نفس کی اتباع , عورتوں کی خوبیوں اور اوصاف کو بیان کرنے  اور ان کے بارے میں غزل گوئی میں مشغول رہتے تھے۔اسی وجہ سے اللہ نے اپنے توحید پرست بندوں کو حکم دیا کہ وہ ایام حج اور تشریق کی راتوں کو اللہ کے ذکرکرنے, اس کی نعمتوں پر خوش ہونے, اس کا شکریہ ادا کرنے,تکبیر, تہلیل, اور تعظیم  بجا لانے کے دن بنا لیں۔ فرمان الہی ہے : پھر جب  اپنےارکان و اعمال حج ادا کر چکو تو جس طرح پہلے اپنے آباء و اجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اب اللہ کا ذکر کروبلکہ اس سے بھی بڑھ کر ( بقرہ/200)۔
امت اسلامیہ : یقینا ہمارے سلف صالحین اس حرمت والے گھر کا حج کیا کرتے تھے , اس حال میں کہ انہیں اللہ کی عظمت اور اس عبادت حج  کی جلالت کا احساس ہوتا تھا۔ وہ حج کو ان بڑی عبادتوں میں شمار کرتے تھے جو نفسوں کو بدلتی ہیں۔ ان کا تزکیہ, صفائی اور تربیت کرتی ہیں , اسی وجہ سے وہ حج میں دقت کی اہمیت , اور طاعتوں میں اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت کو جانتے تھے۔ اسی طرح ان کو اخلاص , سچائی اور اعمال میں نبی کی موافقت کے بارے میں تلاش کی اہمیت کا علم تھا ۔ اللہ ان پر رحم فرمائے وہ لوگ حج کو سیر و تفریح یا سیاحت یا غنیمت  نہیں تصور کرتے تھے , بلکہ ان کا حج اللہ کے لئے اور اللہ کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق ہوتا تھا نہ کہ دکھاوا  , شہرت اور فخر وغرور کے لئے , اسی وجہ سے سلف کا حج عبرت و موعظت ہوتا تھا جس کو تاریخ نے نور کی روشنائی سے سیرتوں اور صحیفوں میں ہمیشہ کے لیے تحریر کر لیا ہے جس سے تم اخلاص کی خوشبو اورسچائی کی ہوا سونگھتے ہو ۔  جس میں تم ایمان  کی شیرینی اور یقین کی لذت پاتے ہو۔ اللہ کی قسم ان کے نفوس کتنے پاکیزہ تھے ۔ان کا کلام کتنا شیریں تھا ۔ ان کا حج کتنا شاندار تھا اور ان کے دل کتنے صاف تھے ۔ مذکور ہے کہ حضرت انس بن مالک نے حج کیا تو لوگوں نے ان کو اللہ کی ذکر یا بھلائی کے علاوہ اور کوئی بات چیت کرتے ہوئے نہیں سنا یہاں تک کہ وہ اپنے احرام سے حلال ہوگئے پھر گویا ہوئے کہ احرام اس طرح ہوتا ہے ۔ اور جب ابن عمر سے کہا گیا کہ کتنے زیادہ حاجی ہیں تو ان کا جواب تھا کہ کتنے کم حاجی ہیں ان کی مراد اہل اخلاص سے تھی جو کم ہوتے ہیں ۔ اور حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا : کہ تم لوگ پراگندہ حال , غبار آلود اور پسینہ میں شرابور ہوتے ہو۔  قربانیاں کرتے ہو۔ لھذا اس کے بدلے میں دنیا کے کسی مال و متاع کا ارادہ نہ کرنا , اور ہم اس سے بہتر و افضل اور کوئی سفر نہیں جانتے ہیں ۔
 حضرت شریح  کا کہنا ہے کہ حاجی کم ہیں قافلے بہت زیادہ ہیں ۔ خیر و بھلائی کا کام کرنے والوں کی کثرت ہے لیکن وہ لوگ بہت کم ہیں جو اپنے عمل سے خالص اللہ کا ارادہ کرتے ہیں۔اسی وجہ سے جب حضرت شریح حج کا احرام باندھتے  تو ان کے اوپر  زیادہ خاموشی, غور و فکر  اور اللہ کے لیے عاجزی و مسکنت کی وجہ سے  سکون و وقار کا غلبہ ہوتا۔  حج میں سلف کے خشوع کی ایک مثال یہ ہے کہ جب علی بن حسین   احرام باندھنے کا ارادہ کرکے اپنے جانور پر سوار ہوئے تو ان پر خوف کا اتنا غلبہ ہوا کہ ان کا رنگ زرد ہوگیا ۔ وہ کانپنے لگے اور تلبیہ نہیں پکار سکے , چنانچہ ان سے پوچھا گیا- اللہ آپ پر رحم فرمائے- آپ کو کیا ہوگیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھ سے لا لبیک ولا سعدیک نہ کہا جائے , اور جب حضرت مسروق نے حج کیا تو وہ صرف سجدہ کی حالت میں سوتے تھے یعنی وہ  ایسا اپنے وقت پر بہت زیادہ حرص اور اس کو  دوران حج عبادت میں گزارنے کے لیے  کرتے تھے۔ حضرت ضمرہ بن ربیعہ کا قول ہے کہ میں نے اوزاعی کے ساتھ حج کیا تو میں نے ان کو رات یا دن میں لیٹے ہوئے نہیں پایا , وہ نماز ادا کرتے رہتے تھے اور جب ان پر ننید کا غلبہ ہوتا  تو لکڑی پر ٹیک لگا لیتے ۔
  ہمارے سلف صالحین کی بیویاں و عورتیں مردوں کے میل جول اور دھکم دھکا سے دور رہتی تھی ۔ پردہ نیز حیاء و  وقار پر حریص ہوتی تھیں ۔ مذکور ہے کہ حضرت عائشہ اور ان کی سہیلیاں اپنے چہروں کو حج میں کھلا رکھتی تھیں لیکن جب مردوں کے سامنے آتیں تو پردہ اور دوپٹہ اپنے چہروں پر ڈال لیتیں , اور جب ایک عورت نے حضرت عائشہ سے یہ کہا کہ میں نے بیت اللہ کا سات بار طواف کیا , اور رکن کو دو یا تین بار چھوا , تو حضرت عائشہ نے اس کو جواب دیا کہ اللہ تعالی تم کو اجر نہ دے۔ اللہ تعالی تم کو اجر نہ دے ۔مردوں سے       دھکم دھکا کرتی ہو۔ مردوں سے       دھکم دھکا کرتی ہو کیوں نہیں تم صرف تکبیر کہہ کے گذر گئی ۔
   ہمارے سلف کا خیال تھا کہ جس کی وفات حج میں ہوئی تو اللہ نے اس کے لئے بہترین خاتمہ چنا ۔اور اللہ کے حرمت والے شہر میں عظیم و جلیل عمل سے اس کا خاتمہ کیا کیونکہ جب وہ حج کے لئے آیا تو اللہ نے اس کی روح اپنے سب سے محبوب و پسندیدہ زمین اور عمل میں قبض کی ۔
فاللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر ,لا الہ الا اللہ , واللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر , وللہ الحمد ...
بندگان الہی : اب مخلوق میں سب سے بہتر وافضل شخص پر درود و سلام بھیجو ۔

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: