اولاد کے تعلق سے ہماری ذمہ داریاں:کتاب وسنت کی روشنی میں


بسم الله الرحمن الرحيم
مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

بتاریخ: 10-11-1435ھ/ 5-9-2014ع

خطبہ وتحریر: ڈاکٹر اسامہ بن عبداللہ خیاط
امام وخطیب مسجد حرام


ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
 مدرس ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ


اولاد کے تعلق سے ہماری ذمہ داریاں:کتاب وسنت کی روشنی میں
     پہلا خطبہ:
          ہر طرح کی تعریف وتوصیف سارے جہانوں کے پروردگار کے لیے ہے اور بہتر انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور نیک لوگوں کا ولی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو تمام رسولوں کے امام،آخری نبی اور دنیا والوں کے لیے رحمت ہیں۔اے اللہ تو اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر رحمت وسلامتی نازل فرما،آپ کی روشن اور بابرکت آل واولاد پر،آپ کے تمام صحابیوں پر،تابعین پر اور ہر اس شخص پرجو بھی ان کی قیامت کے دن تک اخلاص کے ساتھ پیروی کرے۔
        امابعد:اللہ کے بندو!اللہ سے ڈروکیوں کہ اللہ کا تقوی سب سے بہترین توشہ ہے جس کو لے کر تم اپنے رب کے حضور حاضر ہوگے اور جس سے تمھاری زندگی سنورتی ہے۔
        اللہ کے بندو!اللہ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت وہ مضبوط تعلق اور مستحکم ربط ہے جس کے ذریعے اس نے اپنے بندوں پر احسان کیا ہے اور جو بندے کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے جو اللہ نے اس پر واجب قرار دیا ہے۔اس پر خصوصی توجہ دنیا ضروری ہے اور اس کو اس طرح ادا کرنا لازم ہے جو ہمارے رب کو پسند ہے تاکہ وہ اس پر ہمیں ثواب عطا فرمائے۔
        نبی کریم ﷺ نے تمام بالغین کو ان کے ماتحتوں پر نگراں اور ذمہ دار بنایا ہے،ان کی حفاظت کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی ہے،ان کی حیثیت ایک نعمت کی ہے جو انھیں عطا کی گئی ہے۔ان کی دیکھ ریکھ کرنی ہے تاکہ ان کی اصلاح ہو اور جس کے ذریعے نعمت کی بقااور دوام کے مقصد کو پہنچاجاسکے  اور اس کا فضل باقی رہے اور اس کی مکمل تعریف وثنا ہو۔چنانچہ ہمارے نبی کا فرمان ہے:”تم میں کا ہرایک راعی یعنی نگراں ونگہبان ہے اور تم میں کا ہر ایک اپنے ماتحتوں کے بارے میں ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔امام نگراں ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں ذمہ دار ہے،آدمی اپنے اہل خانہ کا نگراں ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں ذمہ دار ہے،اسی طرح عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اپنی رعایا کی ذمہ دار ہے اور خادم اپنے مالک کے مال کا نگراں ہے اور اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے۔اس طرح سے تم میں کا ہر کوئی نگراں اورنگہبان ہے اور اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے۔
        اللہ کے بندو!جان لیجئے کہ امانت کئی طرح کی ہوتی ہے اور اس کی بہت سی قسمیں ہیں لیکن بلاشبہ ان میں مقام ومرتبہ کے اعتبار سے سب سے بڑھ کر اور سب سے عظیم امانت بچوں کی امانت ہے خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔یقیناًاولاد کی نعمت سب سے بڑی اور ظاہر وباہر نعمت ہے۔وہ دل کے پھل ہیں،جان کے پھول ہیں،جگر کے ٹکڑے ہیں اور دنیاوی زندگی کے لیے زینت اور اس کی تروتازگی ہیں۔ان کی صلاح ودرستگی سے بڑھ کر دلوں کے لیے کوئی دوسری نعمت نہیں اور ان کے بگاڑ وفساد سے بڑھ کر کوئی شقاوت نہیں ہے۔اولاد اللہ کی امانت ہے جس کو اللہ نے اس کے والدین کے پاس بطور امانت رکھا ہے اور ان سے اس کی حفاظت اور نگرانی کا مطالبہ کیا ہے۔اس میں کسی طرح کی خیانت کرنے،اس کو ضائع وبرباد کرنے اور اس کی بری اور خراب نگرانی کرنے پر تنبیہ کی ہے۔اللہ کا ارشاد ہے:”اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اور اپنی امانتوں میں جانتے بوجھتے ہوئے خیانت نہ کرو۔اوریادرکھو کہ تمھارا مال اور تمھاری اولاد ایک آزمائش ہے اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے“(الانفال:۲۷۔۲۸(
        اس آیت کا مفہوم یہ ہے جیسا کہ امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ وہ مال جو اللہ نے تمھیں بخشا ہے اور تمھاری وہ اولا جو اللہ نے تمھیں عطا کی ہے،تمھارے لیے ایک امتحان اور آزمائش ہے،اللہ نے تمھیں اس لیے عطا فرمایا ہے تاکہ تمھیں آزمائے اور یہ دیکھے کہ تم کس عمل کرتے ہو،اس میں جو اللہ کا حق ہے اسے کیسے ادا کرتے ہو،اس سلسلے میں اللہ نے جو حکم دیا ہے اس کی بجاآوری کیسے کرتے ہو اور جو اس سلسلے میں اس کی منہیات ہیں،ان سے کس طرح باز رہتے ہو۔
        یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ نے جس مال اور اولاد کو دنیا میں تمھارے لیے وجہ آزامائش بنایا ہے،اس کے سلسلے میں اللہ کے اوامر کی تابعداری اور اس کی منہیات سے اجتناب کرکے تم جواللہ کی اطاعت کرو گے اللہ تمھیں اس کی نیکی عطا کرے گا اور بہت بڑے ثواب سے نوازے گا۔اللہ نے تمھیں جس قدر مکلف بنایا ہے،اسی قدر اس کی اطاعت بجالاؤ تو تمھیں آخرت میں اس کا اجرجزیل عطا کیا جائے گا۔ 
        جس طرح اللہ نے بچوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ ہر طرح کی نیکی اور احسان کریں جیسا کہ اس کا فرمان ہے:”اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤاور والدین کے ساتھ احسان کرو۔“اسی طرح اللہ نے والدین کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ نیکی اور راست روی پر اپنے بچوں کی مدد فرمائیں،ان کی طاقت سے زیادہ اطاعت اور تابعداری کا انھیں مکلف نہ بنائیں،ان کے معاملے میں زیادہ سختی سے کام نہ لیں،ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جنھیں اپنے حقوق کے علاوہ کچھ یاد نہیں رہتا اور اپنے اوپر دوسروں کے واجب ہونے والے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔درصل اسی رویے کو معاملات میں ڈنڈی مارنا کہتے ہیں۔ایک سمجھ دار اور عقل مند کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اس سے بچے جس طرح وزن اور ناپ میں ڈنڈی مارنے سے بچاجاتا ہے۔
        نیکی اور بھلائی کے سلسلے میں جن کاموں سے مدد ملتی ہے ان میں سرفہرست کام یہ ہے کہ تمام بچوں خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں،پر رحم کیا جائے،ان کے ساتھ نرمی برتی جائے اور ان سے شفقت کے ساتھ پیش آیا جائے۔اس سلسلے میں ہمارے مقتداہمارے مشفق،مہربان اور کرم فرمانے والے نبی ﷺ ہیں۔ایک بار حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ ﷺ حضرت حسن کو بوسہ لے رہے ہیں۔حضرت اقرع کہنے لگے کہ میرے تو دس بچے ہیں لیکن میں نے آج تک ان میں سے کسی کو بوسہ نہیں لیا۔یہ سن کر نبی کرم ﷺ نے فرمایا:”جو رحم نہیں کرتا تو اس کے اوپر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔“ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”ایسا وہی کرسکتا ہے جس کے دل سے اللہ نے رحمت نکال دی ہو۔“یہ بخاری اور مسلم کی روایت ہے۔
        ہم سب جانتے ہیں کہ جب آپ ﷺ کے صاحب زادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے۔اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو آپ پر،آپ نے فرمایا:آنکھوں سے آنسورواں ہیں اور دل غم گین ہے لیکن اس کے باوجود ہم وہی کہیں گے جو ہمارے رب کو پسند ہے اور اے ابراہیم!تیری جدائی سے ہم غم گین ہیں۔(بخاری)۔اسی طرح آپ ﷺ حضرت اسامہ بن زید اور حضرت حسن بن علی کو تھامے ہوئے کہتے تھے کہ”اے اللہ!تو ان دونوں سے محبت فرما کیوں مجھے ان دونوں سے محبت ہے۔“(بخاری(
        نیکی اور بھلائی کے کاموں میں جن چیزوں سے مدد ملتی ہے،ان میں ایک چیز بچوں کے درمیان معاملات میں عدل وانصاف کرنااور ہدیہ وعطیہ میں ان کے درمیان مساوات برتنا ہے۔حدیث میں آیا ہے کہ جب حضرت بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے حضرت نعمان کو لے کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام ہدیہ میں دیا ہے تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا:کیا تم نے اپنے سبھی بچوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے؟اس پر ان کا جواب تھا کہ نہیں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنے بچوں کے ساتھ عدل کرو۔یہ سن کر حضرت بشیر واپس چلے گئے اور وہ ہدیہ انھوں نے واپس لے لیا۔بعض روایات میں یہ آیا ہے کہ نبی کرم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تمھارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور بچہ بھی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:تمھارے بیٹوں کا تمھارے اوپر حق یہ ہے کہ تم ان کے درمیان عدل کرو،مجھے ظلم وجور پر گواہ نہ بناؤ۔پھر آپ نے ان سے دریافت فرمایا:کیا تمھیں یہ پسند ہے کہ تمھارے تمام بچے تمھارے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے میں برابر ہوں؟انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ تب ایسا مت کرو۔
        معلوم ہوا کہ عطیہ اور ہدیہ میں بچوں کے درمیان برابری کرنا اور ان میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہ دینا ان کی نیکی اور بھلائی کا سبب ہے اور ان کے درمیان لڑائی،جھگڑا اور بغض وکینہ کے دروازے کو بند کرنا ہے۔
        یاد رکھئے کہ بچے سے سچی محبت کی سب سے بڑی دلیل اور گواہی اس کی تعلیم پر توجہ دینا ہے اور اس کی اچھی تربیت کرنا ہے۔اس تعلیم وتربیت کی بنیاد اچھائی اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرنا،اچھائی اور بھلائی کو مضبوطی سے تھامنا،اس کی عادت ڈالنا اور اس کی مشق کرنا ہو۔اس تعلیم وتربیت کی سب سے نمایاں علامت یہ ہے کہ بچے کے لیے اطاعت وفرماں برداری کی راہ پر چلنا اس کے بہتر انجام کو واضح کرکے اس کی نگاہ میں محبوب وپسندیدہ بنادیا جائے۔جب کہ گناہ اور معصیت کو اس کے برے انجام کو بیان کرکے اس کی نظر میں مبغوض وناپسندیدہ بنادیا جائے اور اس بات کا مکمل خیال رکھا جائے کہ اس کے قول وفعل میں موافقت اور ہم آہنگی پائی جائے۔اس کے قول وفعل میں تعارض نہ ہو اور نہ دونوں میں مخالفت پائی جائے کیوں کہ اس سے بڑا کوئی دوسرو نقصان نہیں ہے کہ کسی کے افعال،اس کے اقوال کی تصدیق نہ کریں بلکہ اس کے برعکس ہوں۔
        جان لیجئے کہ بچوں اور بچیوں سے سچی محبت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ہم نشینی اور صحبت کے باب میں ان کے سامنے نبی اکرم ﷺ کی پیش کردہ بلیغ مثال کی نمائش اور وضاحت کی جائے۔آپ کا ارشاد ہے کہ ”نیک اور دب ساتھی کی مثال خوشبووالے اور دھونکنی میں پھونک مارنے والی کی طرح ہے۔خوشبو والے کے پاس بیٹھوگے تو وہ تمھیں ہدیہ میں خوشبودے گا،تم اس سے خوشبو خرید لوگے یا اس سے کم ازکم تمھیں اچھی خوشبو سونگھنے کو ملے گا جب کہ دھونکنی میں پھونک مارنے والا یاتو تمھارے کپڑے جلادے گا یا تم اس کے پاس بیٹھ کر بدبو کا احساس کروگے۔“(بخاری ومسلم(
        اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک ساتھی اور دوست کی شان کتنی عظیم ہے،اس کا اپنے دوست پر کتنا زبردست اثر ہوتا ہے اور اس کی ہم نشینی کا کس قدر خوبصورت اور بہترین انجام ہوتا ہے جب کہ برے ساتھی اور دوست کی حالت کتنی خراب،بدشکل اور بدنما ہوتی ہے،اس کا اپنے ہم نشین پر بہت زیادہ نقصان بھی ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ بھی بہت براسامنے آتا ہے۔آج کل ان آخری ادوار میں اس طرح کی صحبت اور ہم نشینی عام ہوگئی ہے اور اس میں تیزی اور شدت آگئی ہے۔باطل کے جھنڈے بہت زیادہ ہوگئے ہیں،گمراہی کی راہیں بھی مختلف ہوگئی ہیں،جہنم کے دروازوں کی طرف دعوت دینے والے اپنی دعوت میں مصروف ہیں،جو ان کی دعوت پر لبیک کہہ رہا ہے وہ اسے جہنم میں ڈھکیل رہے ہیں۔برے دوست اور برے ہم نشیں بہت بڑا خطرہ ہیں اور بہت زیادہ نقصان کا سبب بھی۔یہ اپنی طرف ہر غافل اور فریب خوردہ کو کھینچ رہے ہیں اور اپنے جال میں ہر اس شخص کو پھنسا رہے ہیں جس کا تجربہ کم ہے اور جس کو بغیر دلیل کے دعووں اور بے بنیاد نعروں کے ذریعہ گمراہ کرنا آسان ہے۔آج کے اس دور میں مختلف جماعتیں،تنظیمیں،فرقے اور پارٹیاں ایسی دعوت دینے میں لگی ہوئی ہیں اور ایسی چیزوں کی طرف بلارہی ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی ہے،اس کے دین کے خلاف مکروسازش کرنا اور اس کی راہ سے روکنا ہے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے دور کرنا اور اس کے تئیں ان کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا ہے۔وہ برے برے کام کررہے ہیں،گناہوں کا ارتکاب کررہے ہیں،ان کے ہاتھوں ایسے جرائم کا ظہور اور ایسے قبیح اعمال وافعال کا صدور ہورہا ہے جن کی نسبت اسلام کی طرف صرف وہی کرسکتا ہے جو اسلام سے نابلد یا اس کا دشمن ہے یا وہ اپنی مصلحتوں کا اسیر ہے جس کا مقصد صرف اپنی امیدوں اور آرزووں کی تکمیل اور شیطان کی پیروی ہے۔
        شیطان اس کے لیے جماعت سے الگ تھلگ ہونے کے عمل کو مزین کردیتا ہے،وہ امیر کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور نبی اکرم ﷺ کی اس سخت تنبیہ کو دیوار پر ماردیتا ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے:”جس کسی نے اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیا،جماعت سے جدا ہوگیا اور اسی حال میں مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا  اور جس نے مجہوم علم کے نیچے جہاد کیا،عصبیت میں گرفتار ہوکر غصہ ہوا،عصبیت کی طرف دعوت دی اور عصبیت کی حمایت کی اور اس کا قتل ہوگیا تو اس کا قتل جاہلیت پر ہوا اور جس نے میرے امت کے خلاف بغاوت کی،اس کے نیک وبد کی گردن ماری،کسی مومن کو بھی نہیں چھوڑا اور نہ کسی معاہد کی رعایت کی تو میں نہ اس سے ہوں اور نہ وہ مجھ سے ہے۔“اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔
        نبی رحمت وہدایت نے اس وقت کتنی سچی بات فرمائی تھی جب مشہور حدیث فتن میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی صفات سے متعلق آپ سے دریافت فرمایا جو جہنم کے دروزوں کی طرف دعوت دینے والے ہوں گے اور جو ان کی دعوت قبول کرلے گا،انھیں وہ جہنم میں پہنچادیں گے،ایسے لوگوں کے بارے میں حذیفہ کے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا:”ہاں وہ ہماری طرح کھال والے لوگ ہوں گے اور ہماری زبان میں بات کریں گے۔میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولﷺ!اگر ایسا وقت آجائے تو مجھے کون سا طرز عمل اختیار کرنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟آپ نے فرمایا:مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑو۔میں نے عرض کیا:اگر وہاں مسلمانوں کی کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو کیا کروں؟آپ نے فرمایا:پھر تمام فرقوں سے الگ ہوجاؤخواہ الگ ہوکر کسی پیڑ کے تنے سے چمٹا رہنے پڑے یہاں تک کہ تمھیں اسی حال میں موت آجائے۔“اس حدیث کو دو جلیل القدر امام،امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی اس صحیح میں روایت کیا ہے جو اللہ کی کتاب کے بعد صحیح ترین کتابیں ہیں۔
        اللہ کے بندو!اللہ سے ڈرو اور جو امانت تمھارے حوالے کی گئی ہے اس سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرو اور وہ اس طرح کہ اپنے بچے اور بچیوں کا خیال رکھو،ان کی نگہ داشت کرو اور ان کی طرف سے ذرا بھی غفلت نہ کرو۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی اچھی تربیت کرو،نیکی اور بھلائی میں ان کی مدد کرو،ان سے خطروں کو دور رکھو اور بلاشبہ ان کے لیے سب سے بڑا اور سخت خطرہ برے ہم جولیوں اور ساتھیوں کا خطرہ ہے جو اصلاح کی بجائے فساد وبگاڑ پیدا کرتے ہیں اور امانت داری کے بجائے خیانت کرتے ہیں۔
        اللہ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کی ہدایت اور اپنے نبی کی سنت سے نفع پہنچائے۔میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور میں اپنے لیے،آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اللہ بزرگ وبرتر سے ہر گناہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں،بلاشبہ وہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
        دوسرا خطبہ:
        یقیناً سب تعریف اللہ کے لیے ہے،ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں،اسی سے مدد چاہتے ہیں،اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور ہم اللہ کے ذریعے اپنے نفسوں کی برائیوں اور بدعملیوں سے پناہ طلب کرتے ہیں۔جس کو اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔اللہ تعالیٰ کی آپ پر،آپ کے اہل خامدان ہر اور آپ کے صحابہ پر بہت زیادہ رحمت وسلامتی ہو۔
        امابعد:اے اللہ کے بندو!بعض علماء نے لکھا ہے کہ زمانہ اور ملک کے بدلنے سے تربیت اور اس کا طریقہ بھی بدل جاتا ہے،جو چیز کسی ایک قوم کے لیے مناسب نہ ہو ممکن ہے وہ دوسرے کے لیے مناسب ہو اور جو چیز کسی ایک ملک میں اچھی تسلیم کی جاتی ہے ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے ملک میں اچھی تصور نہ کی جاتی ہو۔عقل مندتو وہ ہے جس کے یہاں ہر مقام ومرتبہ کے لیے اسی کے مناسب بات ہوتی ہےاور ہروقت کے لیے اسی کے موافق ایک حالت ہوتی ہے۔
        جان لیجئے کہ یہ بچوں کے ساتھ بالکل شفقت اور مہربانی نہیں ہے کہ جو بعض والدین ان کے ساتھ کرتے ہیں۔مثلاًان کو بہت زیادہ لاڈ پیار کرنا،ان سے ذمہ داری کو ختم کردینا،ان کو مکمل آزادی دینا کہ وہ جو چاہیں بغیر کسی روک ٹوک کے کرتے رہیں،جس طرح چاہیں پروان چڑھیں،صرف یہی نہیں بلکہ انھیں سونا اور ریشم پہنانا،ان کے لیے نرم،ملائم گداز بستر بچھانا ،ان کی کوئی مانگ رد نہ کرنا اور ان کو کسی چیز سے منع نہ کرنا اگرچہ ان کی فقرومسکنت کا پتا واضح طور پر چلتا ہے اور ان کی زبوں حالی قابل دید ہوتی ہے۔ان سب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ عیش وعشرت میں پلتے بڑھتے ہیں،ان کے اندر کسی ناپسندیدہ چیز پر صبر کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے اور نہ کسی واقعہ میں وہ ثابت قدم رہ پاتے ہیں۔جو کچھ موجود ومیسر ہوتا ہے اس پر کفایت نہیں کرپاتے اور نہ کسی نعمت کا شکر ادا کرتے ہیں۔ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ مال ودولت حاصل ہونی کی صورت میں فضول خرچی کرتے لگتے ہیں،چھوٹی سی چھوٹی مصیبت میں ان کی طاقت جواب دے جاتی ہے،ان کے ارادے کمزور پڑجاتے ہیں،ان کے سینے تنگ ہوجاتے ہیں اور لباس کے گندہ ہونے کی صورت میں ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔یہ سب والدین کی بری تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے اور ان کی جھوٹی محبت اور مصنوعی شفقت کا پھل ہوتا ہے۔یا درکھئے کہ بہترین چیز ہر معاملے میں درمیانہ روی اختیار کرنا ہے،جو اپنے بچوں پر رحم نہیں کرے گا تو کسی دوسرے پر کیوں کر رحم کرسکے گا۔اللہ کے بندو!اللہ سے ڈرو اور درود وسلام بھیجو اللہ کی سب سے بہترین مخلوق پر کیوں کہ اس نے تم کو اپنی کتاب میں اس کا حکم دیا ہے۔ارشاد ہے:”بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں تو اے ایمان والو تم بھی ان پر درودوسلام بھیجو۔
اے اللہ!درود وسلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد پر،اے اللہ تو راضی ہو آپ ﷺ کے چاروں خلفاء ابوبکر،عمر،عثمان اور علی سے،تمام صحابہ وتابعین اور قیامت تک اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں سے اور ان کے ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا اپنے عفووکرم اور احسان سے تو ہی گناہوں سے سب سے زیادہ درگزر کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔
        اے اللہ!اسلام اور اہل اسلام کو عزت اور سربلندی عطا فرما،اے اللہ!اسلام اور اہل اسلام کو عزت اور سربلندی عطا فرما،شعائر دین کی حفاظت فرما،دشمنان دین اور تمام سرکشوں اور فسادیوں کو برباد کردے،مسلمانوں کے دلوں کو باہم جوڑ دے،ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کردے،ان کی قیادت میں صالٖحیت پیدا فرمادے اور اے رب العالمین!حق بات پر ان کے کلمے کو جمع کردے۔
        اے اللہ!اپنے دین،اپنی کتاب،اپنے نبی محمد ﷺ کی سنت اور اپنے مومن،مجاہد اور راست باز بندوں کی مدد فرما۔
        اے اللہ!ہمیں ہمارے وطن میں امن وامان دے،ہمارے حکمرانوں اور ہمارے معاملات کے ذمہ داروں کی اصلاٖح فرما،ہمارے امام اور ولی امر کی حق کے ساتھ تائید فرما،انھیں نیک اور مخلص مشیرکار مہیا فرمااور اے دعاؤں کے سننے والے انھیں ان کاموں کی توفیق دے جو تجھے پسند ہوں اور جن سے توراضی ہو۔اے اللہ!انھیں،ان کے ولی عہد اور ان کے بھائیوں کو ان کاموں کی توفیق دے جن میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے خیر ہو اور جن میں ملک اور بندوں کی بھلائی ہو،آخرت میں تیری ہی طرف سب کو پلٹ کرجانا ہے۔
        اے اللہ!تمام معاملات میں ہمارا انجام بہتر بنادے،دنیا کی رسوائی اور جہنم کے عذاب سے ہمیں محفوظ رکھ۔اے اللہ!ہمارے لیے ہمارے اس دین کو درست فرمادے جو ہمارے معاملے کی مضبوط کڑی ہے،ہمارے لیے اہماری اس دنیا کو درست کردے جس میں ہمارا سامان معیشت ہے،ہمارے لیے ہماری اس آخرت کو درست کردے جہاں ہمیں لوٹ کرجانا ہے،ہماری زندگی کو ہر خیر میں ہمارے لیے اضافہ کا باعث بنا اور ہماری موت کو ہر شرسے ہمارے لیے راحت بنا۔
        اے اللہ!ہم تجھ سے کارہائے خیر کی درخوست کرتے ہیں،منکرات سے بچنے کی درخواست کرتے ہیں اور یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے اندر مساکین کی محبت پیدا کردے،ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہمارے اوپر رحم فرما۔اور جب تو کسی قوم کو آزمائش میں ڈالنا چاہے تو فتنوں میں مبتلا ہونے سے پہلے ہمیں اپنے پاس بلالے۔
        اے اللہ!تیری نعمت کے زوال،تیری عافیت کی تبدیلی،تیری عذاب کے اچانک آنے اور تیری تمام ناراضگیوں سے ہم تیری پناہ چاہتے ہیں۔اے رب العالمین!تو ہمارے اور اپنے دشمنوں کے لیے جیسا چاہے کافی ہے،اے رب العالمین!تو ہمارے اور اپنے دشمنوں کے لیے جیسا چاہے کافی ہے،اے رب العالمین!تو ہمارے اور اپنے دشمنوں کے لیے جیسا چاہے کافی ہے۔اے اللہ!ہم تجھے تیرے اور اپنے دشمنوں کے مقابل کرتے ہیں،ان کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں،اے اللہ!ہم تجھے تیرے اور اپنے دشمنوں کے مقابل کرتے ہیں،ان کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں،اے اللہ!ہم تجھے تیرے اور اپنے دشمنوں کے مقابل کرتے ہیں،ان کی شرارتوں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
        اے اللہ!تمام ملکوں کے مجاہدین کی مدد فرما،اے اللہ!ان کے خون کی حفاظت فرما،اے اللہ!ہر جگہ مسلمانوں کے خون کی حفاظت
فرما،اے اللہ!ان کے خون کی حفاظت فرما،آزمائشوں کی برائیوں سے خواہ وہ ظاہری ہوں یا باطنی، ان کی حفاظت کر،اے رب العالمین!ان کے درمیان صلح کرادے،ان کے درمیان صلح کرادے،ان کے درمیان صلح کرادے۔اے اللہ!ہمارے مریضوں کو شفادے،ہمارے مردوں پر رحم فرما،ہمارے اندر وہی آرزو پیدا فرما جس سے توراضی ہے اور ہمارے اعمال کو صالحات پر ختم فرما۔
        اے ہمارے رب!ہم نے اپنی ذاتوں پر ظلم کیے ہیں اگر تونے ہماری مغفرت نہیں کی اور ہم پر رحم نہیں کیا تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔“(الاعراف:۲۳)۔”اے ہمارے رب!ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچالے۔“(البقرۃ:۲۰۱)۔
        اے اللہ!درودوسلام نازل فرما ہمارے نبی محمد پر،آپ کی آل پر اور آپ کے تمام اصحاب پر اور تمام حمد وتعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔









التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: