سلفی منہج کی واضح خوبیاں اور خصوصیات


سلفی منہج کی واضح خوبیاں اور خصوصیات

خطبہ : مسجد حرام از ڈأکٹر عبد الرحمن السدیس 
بتاریخ  30-12-1435 ھ/24-10-2014ع
ترجمہ: ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق 

یقینا ساری ثناء و ستائش اللہ ہی کے لئے ہے،ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں،اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اور اسی سے توبہ کرتے ہیں،اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں،ہم اس کی ایسی حمد و ثناء بیان کرتے ہیں جو برابر لگاتار اور مسلسل جاری و ساری ہو،اور ہم اس پاک ذات کا اس کا یکے بعد دیگرے نازل ہونے والی نعمتوں پر شکریہ ادا کرتے ہیں ایسا شکریہ جس میں پیہم کئی گنا اضافہ ہوتا رہے،ایک عربی شاعر کہتا ہے:
سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، ایسی تعریف وثناء کہ کسی بھی قسم کی تعریف اور کسی بھی حمد بیان کرنے والے کی حمداس کا حق ادا نہیں کرسکتی ہے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے،وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے،جس نے زمانوں کی تقدیر کی اور ان کو آپس میں اچہی طرح مربوط کردیا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور پیشوا محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو کہ اخلاق و کردار اور سیرت و عادات میں مخلوق کے سب سے افضل اور بہترین انسان ہیں،اللہ تعالی کی کئی گنا اور بہت زیادہ رحمت نازل ہو آپ پر آپ کے اہل خانہ پر اور آپ کے صحابیوں پراور تابعین پر اور ان سب پر جو  احسان کے ساتھ قیامت کے دن تک ان کی پیروی کریں۔
حمدو صلاۃ کے بعد:
اے اللہ کے بندوں: اپنے رب اللہ تبارک و تعالی سے خوف کھاؤ، اس کا شکر بجا لاؤ،اس کی اطاعت و فرماں برداری کرو لیکن اس کی نافرمانی مت کرو،اس کی باطنی و ظاہری نعمتوں پر اور اس کی وافر و بکثرت نوازشوں پراس کا شکر ادا کرو، کیونکہ ایسا کرنے سے آپ لوگوں کو دنیا کی بھلائی بھی ملے گی اور آخرت کی نعمتیں بھی حاصل ہوں گی، ایک عربی شاعر کہتا ہے:
شکر ایسے بند دروازوں کو کھولتا ہے جس میں شکر کرنے والے کواللہ کی نعمتیں ملتی ہین،لہذا شکر کی طرف سبقت کرو، اور اس سے اپنا تعلق مضبوط کرلو، اور شکر کے ذریعہ سے اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی آفات و مصایب کا ازالہ کرو۔
اے مسلمانوں: ان بابرکت گھڑیوں میں ہماری امت اسلامیہ ایک ایسے سال کو خیرباد کہہ رہی ہے جو کہ گذر گیااور چلا گیا، اور ایک ایسے سال کو خوش آمدید کہہ رہی ہے جو اپنے نرم و نازک جھونکوں کے ساتھ ہمارے بالکل قریب پہونچ چکا ہے، ایک ایسا سال رخصت ہو گیا جو اپنے اندر ہماری اچھائیوں اور خرابیوں کو سمیٹے ہوئے ہم سے جدا ہو گیا، اور ایک دوسرا سال رفتار زمانہ کے اختلاف و تفاوت کی گواہی دیتے ہوئے شروع ہونے والا ہے،چنانچہ اے اللہ ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تونے آنے والے سال میں امت کے لئے جو بھی مقدر کیا ہے اس میں برکت عطا فرما، اور اسے اسلام و مسلمانوں کے لئے خیر و برکت، عزت و مدد، اور فتح و غلبہ کا سال بنا دے۔
زمانہ کی دعوت پر ایک نیا سال طلوع ہواجو چاندوں سے بھرے ہوئے قافلہ کو ہانکتا ہے، اور جس نے اپنے اندر حادثات کو قید کر رکھا ہے  جو کہ مختلف ملکوں میں گھوم گھوم کر آتے جاتے رہتے ہیں۔
مسلمانوں: سالوں کے یکے بعد دیگرے گزرنے اور ختم ہونے نیز نئے برسوں کے خوشی و شادمانی کے ساتھ طلوع ہونے پر عقلمند اور دانشمند لوگ اپنا احتساب و مراجعہ کرتے ہیں، جائزہ لیتے اور محاسبہ کرتے ہیں، اور ایسا کرنا ضروری بھی ہے کیونکہ یہی ایک بہترین و عقلمند مسلمان کا شیوہ ہوتا ہے، اور سمجھ دار و چاک وچوبند انسان کا طریقہ ہوتا ہے، اور اب جب کہ ایک نیا ہجری سال شروع ہونے والا ہے، اور افق میں امید کی نئی کرنوں اور آرزووں کی موتیوں کو بکھیرنے والا ہے تو ایک عقلمند، دانا و بینا ہوشیار انسان کو یہی زیب دیتا ہے کہ امت کے احوال پر اس کی صاف اور واضح نظر ہو، ماضی کے لغزشوں اور غلطیوں کا بہت ہی ذہانت اور فطانت کے ساتھ تدارک کرے،اور مستقبل کے حالات پر مزید دور اندیشی، صداقت عملی اور پختگی کے ساتھ کام کرے، ایک عربی شاعر کہتا ہے:
لوگوں پر ایک نیا سال طلوع ہواچنانچہ اس روئے زمین پر آباد ہر قوم کے لئے آج عید کا دن ہے،اور جب سال نو کی آمد ہوئی تو لوگوں کی آرزؤں نے اس کو تحیہ پیش کیا، اور،لوگ اس کا کتنا زیادہ مشتاق تھے اور اس کے لئے کتنا بیچین تھے  جبکہ وہ ابھی ان سے دور ہی تھا۔
اے ایمان والی امت کے لوگوں:مضبوط تاریخی تعلق اور راسخ تہذیبی و تمدنی نسبت اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ صحیح عقیدہ کو چھوڑ کے کوئی اور چیز ایسی نہیں ہے جو بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک لڑی میں پرودے، اور اجنبی و منتشر لوگوں میں الفت و محبت پیدا کردے،اور آپس میں نفرت انگیز نظریات کوایک دھاگے میں پرودے، تو کیا اب یہ امت  اپنی ناگفتہ بہ انتشار و اختلاف، رسواکن و ذلت آمیز طریقے سے پچھڑنے،تاریک اور سیاہ سرنگوں میں حیران وپریشان ہونے  اور گمراہی کے زیر زمیں راستوں میں سرگشتگی کے بعد اس بات کو سمجھے گی کہ امن و امان کے ساحل تک پہونچانے والی نجات کا پٹہ اسی میں پوشیدہ ہے کہ صحیح اور درست سلفی منہج کو اپنایا جائے جو کہ فاضل صدیوں کا منہج ہے، جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ سب سے بہتر اور افضل میرے زمانہ کے لوگ ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہیں، اور یقینا یہ چیز بہت ہی تکلیف دہ ہے کہ ہم عصر حاضر میں امت کے فرزندوں کی ایک بڑی تعداد کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ سلف صالحین کے منہج کے معاملے میں تفریط کا شکار ہیں،اور یہ لوگ گمراہ اور بھٹکے ہوئے لوگوں کے مسلک و مشرب سے فیضیاب ہو رہے ہیں، نیز اسلاف کرام اور  ان کے صاف و واضح منہج کی مخالفت کر رہے ہیں،چنانچہ انھوں نے اپنے طور طریقوں مین گلوبائزیشن اور مغربیت کو حاوی کر لیا ہے،اور دین کی ثابت شدہ اور شریعت کی پائیدار و ٹھوس چیزوں پر حملہ و اعتراض کرتے ہیں،دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہیں جو غلو اور تکفیر کی فکر میں شرابور ہیں، اور جن کا شیوہ ہی تشدد، دھماکہ،تباہی و بربادی، قتل اور خونریزی وغیرہ ہے، اس طرح کی اور بھی بہت ساری بلائیں اور مصیبتیں ان کے یہا ں پائی جاتی ہیں،جن سے ہر موحد اور مومن بری ہے، اور جن سے صرف غلوپسند خوارج ہی متصف ہو سکتے ہیں۔
ایک شاعر کہتا ہے کہ ان لوگوں سے کہہ دو جو افواہوں کا شکار ہوکر بہک گئے ا ور زمین میں فساد برپا کیاکہ تم جیسے لوگوں کا ہماری زندگیوں میں کوئی اعتبار نہیں ہے، اور تمھارے علاوہ کوئی اور قوم نہیں ہے جس نے دہشت گردی کو جائزقرار دیا ہوبلکہ تم لوگ اس کو جائز قرار دینے والے سے بھی زیادہ سخت ہو۔
اے مسلمانوں: آج کی دنیا میں مختلف قسم کے فتنے اور اضطرابات موجیں مار رہی ہیں، اور مختلف قسم کے فرقوں، جماعتوں، پارٹیوں،گروہوں اور نسبتوں کی بھرمار ہے، جنھوں نے اسلامی مفاہیم کو اغوا کرکے اس کے روشن چہرہ کو داغدار بنا دیا ہے،اور ہر کوئی حق کا دعویدار ہے اور حقیقت و درستگی کا ٹھیکیدار ہے، ان حالات میں ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نجات کا راستہ تلاش کرے، اور یہ راہ وہی ہے جس پرہمارے اسلاف کرام گامزن تھے، اور بلاشبہ ہمارے سلف صالحین کے منہج پر غور کرنے والا پائیگاکہ اس شاندار اور بے مثال منہج کی کچھ ایسی خوبیاں اور خصوصیات ہیں کہ اس میں کوئی دوسرا منہج اس کے ساتھ شریک نہیں ہے،اور اس منہج کی سب سے پہلی خوبی اور خصوصیت اللہ کے لئے خالص توحید کا اہتمام ہے،   چنانچہ کوئی اس کا ہمسر نہیں، کوئی شریک نہیں، کوئی اس جیسا نہیں، کوئی اس کا نظیر نہیں،جیسا کہ اللہ نے فرمایا: اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں اپنے دین کو اس کے لئے خالص کرکے بالکل یکسو ہو کر(بینہ/۵) اور یہ بھی فرمایا: کہ اس کے مثل ومشابہ کوئی چیز نہیں ہے،وہ سب کچھ سننے اوردیکھنے والاہے(شوری/۱۱)اور توحید کا جو بلند مقام ہے وہ تو اپنی جگہ ہے ہی البتہ توحید کی حفاظت کرنا، اس کے شرائط وتقاضوں کو پورا کرنا خاص طور سے عملی میدان میں اسے نافذ کرنا ان سب سے زندگی کا سب سے عظیم مقصد پورا ہوگا،اس لئے کی شریعت مطہرہ کا سب سے عظیم مقصد یہی ہے کہ دین کی حفاظت کی جائے،اورعقیدہ کو ہر قسم کی مخالفت اور انواع واقسام کی شرک و بدعات اور خرافات سے محفوظ رکھا جائے۔
میرے  موحدبھائیو: ان واضح خصوصیات اور خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے معاملے میں علم اور بصیرت کے ساتھ قرآن اور سنت کی طرف  لوٹاجائے،جیسا کہ اللہ تعالی کا اس آیت میں حکم ہے:پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملہ میں جھگڑا ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہی ایک صحیح طریقہ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے(نساء/۹۵)، اورمتشابہ کو محکم کی طرف، اور مجمل کو مبیّن کی طرف اس طرح سے  لو ٹاناکہ اس میں ظاہر نصوص اور مقاصد نصوص، معقول اور منقول دونوں کا ملاپ ہو،اور یہ سلف کے منہج اور ان کے زندگی کی واضح خصوصیت ہے کہ ہر وہ چیز جو کتاب وسنت کے موافق ہے اس کو انھوں نے باقی رکھا اور ہر وہ چیز جو کتاب وسنت کے مخالف ہے اس کو انھوں نے باطل قرار دیا،وہ لوگ نص صحیح سے کبھی عدول نہیں کرتے تھے،اور نہ ہی رائے وعقل سے اس کا معارضہ کرتے تھے اور نہ ہی نصوص وحی کے اوپر عقل کو حکم بناتے تھے، زبان حال سے وہ کہتے تھے:اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور ہدایت کی اتباع کرو، بدعتی نہ بنوتاکہ کامیاب و کامران ہو، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنتوں کو اپنا دین بناؤ اس سے تم نجات پاجاؤ گے اور فائدہ میں رہو گے۔
اسلامی بھائیو: ہمارے سلف صالح کے منہج کی ایک قیمتی خصوصیت جو ان کا سب سے خاص علامت اورشعار بھی ہے،بلکہ ان کے واضح منہج کی ایک روشن ودرخشاں نشانی بھی ہے وہ جماعت کو لازم پکڑے رہنا اور اس کے تقاضوں پر کاربند رہنا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اختلاف نہ کرو(آل عمران/۳۸)، حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ اللہ کی رسی جماعت ہے، ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت گمراہی پر ہرگز اکٹھا نہیں ہو سکتی تو تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو، کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت کے اوپر ہے،اس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے، اور ابن مسعود سے یہ اثر ثابت ہے کہ انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ جماعت میں جس چیز کوتم لوگ ناپسند کرتے ہو وہ اس سے بہتر ہے جس کو تم لوگ اختلاف میں پسند کرتے ہو، اور ا مام طحاوی نے فرمایا ہم جماعت کو حق اور درست سمجھتے ہیں، اور اختلاف کو کج روی اور عذاب سمجھتے ہیں، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ جماعت کو مضبوطی سے پکڑے رہنا اور آپس میں الفت ومحبت رکھنا دین کے اصول میں سے ہے، سلف صالحین اور ان کے طریقہ پر چلنے والے لوگ جماعت اور حق پر ہوتے ہیں، آپس میں الفت رکھتے ہیں، اپنے امیر کے مطیع، فرماں بردار ہوتے ہیں، اپنے امیر کی بات کوسنتے اور اس کی اطاعت کرتے ہیں، اور  ایساصرف اس لئے کرتے ہیں کہ شارع کا جو مقصد ہے وہ پورا ہو یعنی مصالح کی تحقیق و تکمیل ہو، اور مفاسد کا خاتمہ ہو اور ان میں کمی آئے، معصوم لوگوں کی جانیں محفوظ رہیں، اور ان کے خون کو حلال نہ سمجھا جائے۔
اسلامی بھائیوں،صحیح عقیدہ کے حامل لوگو ں،واضح  صریح منہج  والوں: الفت اور جماعت کی اہمیت و عظمت کا احساس کرو،ارشاد ربانی ہے:اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو،اور آپس میں جگھڑا نہ کروورنہ تمھارے اندر کمزوری پیدا ہوجائیگی اور تمھاری ہوا اکھڑ جائیگی(انفال/۶۴)  اور یہی ہمارے اسلاف کا روشن منہج اور ان کا درخشاں مسلک رہا ہے،ایک عربی شاعر کہتا ہے: بہترین کام وہ ہے جو ہدایت کے مطابق ہو اور بدترین کام دین میں نکالے گئے نئے نئے کام اور بدعات ہیں۔
میرے ہم عقیدہ بھائیو: یہ جو دعوت ہے کہ سلف صالحین کی اتباع کی جائے اور ان کے منہج پر چلا جائے، یہ دعوت  قدامت پرستی،پسماندگی اور رجعت پسندی کی دعوت نہیں ہے، بلکہ یہ بلند ترین منہج اور اعلی ترین طریقہ کی دعوت ہے، یہ دعوت یہی ہے کہ حق کو لازم پکڑا جائے، اور مخلوق کے ساتھ رحمت برتی جائے، یہی دعوت سب سے زیادہ علم والی، سب سے زیادہ مضبوط اور سب سے  زیادہ محفوظ دعوت ہے،  کیونکہ حقیقی سلفیت کسی قسم کی گروہ پسندی اور عصبیت کا نام نہیں ہے،نہ  یہ کوئی الگ مذہب و گروہ بنانے کا نام ہے بلکہ یہ ایک منہج ہے جو طبعی طور پر تجدد پذیر ہے، یہ ایک عقیدہ ہے جس کی بنیاد ہروہ چیز ہے جو اسلام کے احکام اور اس کے مقاصد کے موافق ہے، اسی طرح سلفیت کسی خاص شخصیت، جماعت یا شہر سے منسوب نہیں ہے، یہ دعوت لوگوں کو آپس میں دور کرنے والے، تفرقہ پیدا کرنے والے، علیحدگی پر ابھارنے والے، تشدد کو پسند کرنے والے اور مفاہیم کو بدلنے والے مسلکوں سے بہت دور ہے یہ ایک ہمہ گیر دعوت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے طریقہ کی  ظاہری اور باطنی طور پراتباع کی جائے،، اور آپ ﷺ کے اصحاب کرام کے طریقہ کی پیروی کی جائے، بدعات وخرافات سے دور رہا جائے، اور اہل خواہشات اور گمراہ لوگوں کی مخالفت کی جائے، ارشاد خداوندی ہے:وہ مہاجر و انصارجنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوااور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے(توبہ/۱۰۰)، اس آیت میں  اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سلف صحابہ کرام مھاجرین وانصار کے نقش قدم پر چلا جائے، اس لئے کہ یہی لوگ اس امت میں سب سے زیادہ عادل، أفضل اور اللہ کے دین کا سب سے زیادہ علم رکھنے وا لے تھے، حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ تم میں سے جس کو پیروی کرنی ہو وہ ان کی پیروی کرے جو وفات پاچکے ہیں اس لئے کہ زندہ شخص کے فتنہ میں پڑنے کے بارے میں اطمینان نہیں رہتا ہے، یہ لوگ نبی ﷺ کے صحابہ ہیں، جو کہ اس امت میں سب سے نیک دل والے، سب سے گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف والے ہیں، یہ وہ قوم ہے جن کو اللہ نے اپنے نبی کی صحبت کے لئے اور اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے منتخب کیاہے، لہذا ان کی قدر کوپہچانو، یہ لوگ سیدھی ہدایت پر گامزن تھے،اور    امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیز ؓ نے فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے بعد کے خلفاء نے کچھ چیزوں کو جاری کیا ہے جن کو اپنانا اللہ کے کتاب کی اتباع ہے، اور اللہ کے اطاعت کی تکمیل ہے اور اللہ کے دین کی طاقت ہے، کسی بھی مخلوق کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس میں تغیر یا تبدیلی کرے، اور نا اس چیز کی طرف دیکھے جو اس کے مخالف ہو، جو اس کے مطابق ہدایت پاگیا وہی ہدایت یافتہ ہے، جس نے اس کے ذریعہ مدد طلب کی اس کی مدد کی جائے گی ، اور جس نے اس کو چھوڑا اس نے مؤمنوں کے سوا دوسری راہ کی اتباع کی، اللہ نے اس کو ادھر پھیر دیا جدھر وہ پھرا، اور اس کو جہنم میں پہونچا دیا اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔
امت اسلامیہ کے لوگو ں: اس بنیادی مفہوم کے اعتبار سے سلفیت ایک عقیدہ ہے ایک منہج حیات ہے، کو ئی بھی  زمانہ یا علاقہ اس کے بغیر درست نہیں ہو سکتا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اہل سنت وجماعت کا طریقہ یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے نقش قدم کی باطنی اور ظاہری طور پر پیروی کی جائے، اور مھاجرین وانصار میں سے سابقین اولین کی اتباع کی جائے، اور رسول ﷺ کے اس وصیت کی اتباع کیجائے جس میں آپ نے فرمایا کہ میری سنت کو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لو، اور اپنے داڑھ کے دانتوں سے اسے پکڑ لو، اور نئے نئے کاموں سے بچو کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے، ابن تیمیہ کی بات پوری ہوئی، لیکن ان سب کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ دور نوکے وسائل کو نہ اپنایا جائے، زمانہ کی اختراعات وایجادات سے  فائدہ نہ اٹھایاجائے، ان سے قدم سے قدم ملا کر نہ چلا جائے، بلکہ ہونا یہ چاہیئے کہ ثابت شدہ چیزوں اور تغیّر پذیر چیزوں کے درمیان ہم آہنگی اور یگانگت ہو۔
امت اسلامیہ کے فرزندوں: اس تابناک اور روز روشن کی طرح عیاں دعوت پر کسی انسان سے ہونے والی لغزشوں اور حرکتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ سوا ئے ر سول خدا نبی رحمت ﷺ کے ہر ایک کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے، اسی طرح اس دعوت پر ان چیزوں سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا جو اس کی طرف منسوب بعض متشدد یا سستی و کوتاہی برتنے والے لوگ انجام دیتے ہیں،کیونکہ اللہ کا دین غلو اور جفا کے درمیان اعتدال کا نام ہے، اور اس طرح کی چیزوں کا ہرگز یہ تقاضہ نہیں ہے کہ سلفیت کو مورد طعن بنایا جائے، اس کے علماء کو نشانہ بنایا جائے، اس کے اکابر کی تصنیفات پرطعن و تشنیع کی جائے، اور ان کے کتابوں سے ان کی عبارتوں کو لیکر ان کے اصل سیاق وسباق سے نکال کر غلط مفہوم نکالا جائے اور اپنی خواہشات کے مطابق استدلال کیا جائے،اسی طرح بعض افرادکی خطا ؤں اور غلطیوں اور بعض شرعی اصطلاحات کی فہم وتطبیق میں ان کی مبالغہ آمیزی کے لئے منہج اور اس کے اصول وضوابط کو ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا ہے،  بنا بریں ہم حق پسند اور انصاف پسند لوگوں کویہ دعوت بھی دیتے ہیں کی اس قسم کی غرض پرستی پر مبنی بھڑکانے والی افواہوں پر ہر گزکان نہ دھریں۔
 ان سب کے بعد اے مسلمان بھائیوں: آج جبکہ ہم نئے ہجری سال کے دہانے پر کھڑے ہیں اس مناسبت سے ہم آپ کو پرخلوص  دعوت دیتے ہیں کہ ہم اللہ کے لئے یکسو ہوجائیں، اس کے دین کے لئے کھڑے ہوجائیں، اس کی شریعت کے لئے بیدار ہو جائیں، اس کے نبی کی سنت، صحابہ کرام کے طریقے اور اسلاف امت کے فہم کو مضبوطی سے پکڑ لیں،اور اس صحیح و درست منہج پرآپسی مشترک محبت اور عام بھائی چارہ کے ساتھ جمع ہو جائیں، کیونکہ اس امت کے متاخرین کا معاملہ اسی چیز سے درست ہوگا جس چیز سے اس امت کے متقدمین کا معاملہ درست ہوا، ایک شاعر کہتا ہے کہ میرے لئے حق کی شریعت کے علاوہ اور کوئی شریعت نہیں ہے، اور حق کی مذہب کے علاوہ میرا اور کوئی مذہب نہیں ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ بلیغ و عزیز اللہ تعالی کایہ قول ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے،لہذا تم اسی پر چلواور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمھیں اس کے راستہ سے الگ کر دیں گے، یہ ہے وہ ہدایت جو تمھارے رب نے تمھیں کی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو۔(انعام/۱۵۳)
اسلامی بھائیوں: اس صحیح سلفی منہج پر اللہ کا یہ بہت بڑا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس کے حق میں لکھ دیا ہے کہ یہ باقی رہے گا نیز پھیلتا رہے گا،جبکہ دوسری بہت ساری دعوتوں اور نعروں کو  بڑھنے اور پھیلنے کا موقع ہی نہیں ملا اور وہ مٹ گئے، اور بلا شبہ ہمارے اس ملک نے جو حرمین شریفین کا ملک ہے اس نے اپنے تابناک اسلامی تاریخ میں اس سلفی عقیدہ اور تجدیدی اصلاحی دعوت کو اپنایا جس سے اس مضبوط دین کو کامل و قوی اقتدار و غلبہ حاصل ہوا، اور یہ سب کچھ کج رو اور باطل پرست لشکروں کے ساتھ ایک طویل کشمکش کے بعد ہواجس کے نتیجہ میں اللہ کے فضل سے یہ لوگ ذلت و خواری کے ساتھ پسپا ہو گئے۔
اور بلا شبہ انہیں بابرکت، بہترین اور پاکیزہ دعوتوں میں سے ایک امام،مجدد اور امام دعوت شیخ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت ہے، اللہ ان پر رحم فرمائے اور ان کو اپنی رحمتوں سے ڈھک لے، ایک عربی شاعر کا کہنا ہے کہ وہ دنیا میں مقام ہدایت پر فائز تھے، لوگوں کوتوحید و ایمان کی طرف دعوت دینے والے تھے، انہوں نے ایسی روشنی بکھیری جو آج تک جگمگا رہی ہے اور ہمہ وقت اللہ کی طرف لوگوں کی رہنمائی کر رہی ہے۔
یقینا امام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت ملت اور دین کے مٹ چکے نشانات راہ کے لئے ایک تجدیدی دعوت تھی،اور بعض مسلمانوں کے بگڑے ہوئے عقیدہ کو صحیح کرنے والی دعوت تھی جس نے کی بدعات و خرافات،شاذ اور گمراہ کن افکار کے خلاف اعلان جنگ کیا، یہ کسی نئے دین یا پانچویں مسلک کی طرف دعوت نہیں تھی بلکہ قرآن وحدیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں تمام نبیوں کے سردار محمد، آپ کے برگذیدہ اصحاب  اور باوفا تابعین کے طریقہ کی عملی تصویر تھی، اور یہ دعوت تکفیری ٹھکانوں اور خوارج کے خطرناک منہج سے مکمل طور سے بری ہے، لیکن ان سب کے باوجود اس اصلاحی دعوت کوبہت زیادہ الزامات،تہمتوں،افواہوں، بدنامیوں اور من گھڑنت باتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کو جھیلنا پڑا،اور باوجود اس کے کہ آج ہم ایک ایسے زمانہ میں ہیں جو صحیح معلومات کا زمانہ ہے، اور جس میں حق و حقیقت کو جاننے کا بہت امکان ہے، پھر بھی اس دعوت کواور اس کے پیروکاروں کووہابیت کے لقب سے نوازا جاتا ہے، اور اکثر اس کے فرزندوں کے کان  سے اس نام کے ذریعہ طعن و تشنیع کی آواز ٹکراتی ہے۔
اور بلاشبہ ملک حرمین شریفین۔ اللہ اس کی حفاظت فرمائے۔اسی اعتدال اور وسطیت پر مبنی سلفی منہج پر گامزن ہے جو کہ کتاب و سنت کی روشنی اور اس امت کے سلف صالحین کے منہج پر قائم ہے، یہ حق کو قبول کرتا ہے خواہ کوئی بھی اس کا پیش کرنے والا ہویہ دیکھے بغیر کہ اس کی اصل کیا ہے، اس کا حسب و نسب کیسا ہے،یا اس کی شکل و صورت کیسی ہے، اورملک حرمین  تمام مسلمانوں کے ساتھ باہمی اتفاق و اتحاد،آپسی الفت و محبت، اور تعاون کے لئے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتا ہے تاکہ اسلامی اخوت، بھائی چارگی، ہم آہنگی اور یگانگت پیدا ہو، اور اختلاف و تفرقہ ختم ہو، ایک عربی شاعر کہتا ہے:
اس کی بنیادوں کو دو اماموں نے مضبوط کیا ہے، ایک تو علم ہے جو گمراہی کو مٹاتا ہے اور دوسرا تلوار ہے جو فتنوں کا خاتمہ کرتی ہے اللہ ملک حرمین شریفین کی حفاظت فرمائے، اسے ایمان،  اطمینان، سکون وچین، سلامتی اور استقرار کا خوبصورت گھنا تناور درخت بنائے،اور اسے الفت و محبت اور مکمل امن و امان کا سایہ دار گلشن بنائے،آپسی رحمت و محبت اور خودداری یہاں رچی بسی رہے، اور آپسی اتفاق و اتحاد اور ملاپ کا جذبہ یہاں کارفرما رہے، اور یہی حال تمام مسلمان ملکوں کا ہو، بیشک میرا رب بڑا سخی اور کریم ہے، اور میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہوں، فرمان الہی ہے:کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑگیا(احزاب/۳۶)

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: