حقیقی عید کیا ہے؟


                              حقیقی عید کیا ہے؟

                   تقبل اللہ منا و منکم
        اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ أکبر اللہ اکبر و للہ الحمد
سب سے پہلے میں اپنے تمام مسلمان بھائیو کو دل کی گہرائی سے عید 2020ع /1441 ھ کی مبارکباد دیتا ہوں اور اللہ عزو جل سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس عید کے موقع پر تمام مسلمانوں کو حقیقی خوشی و مسرت عطا فرمائے اور ان کی ہر تکلیف و مصیبت کو دور کردے ۔ اور جلد از جلد دنیا سے کورونا وباء کو ختم کردے اور بیماروں کو شفاء دے ۔ تقبل اللہ منا و منکم  صالح الاعمال۔  آمین۔
                  اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ أکبر اللہ اکبر و للہ الحمد
برادران اسلام : ہر سال کی طرح اس سال کا عید بھی  آچکا ہے۔گرچہ اس سال کا عید گذشتہ سالوں سے بہت زیادہ  مختلف ہے۔ اس سال پوری دنیا کے مسلمان نہ چاہتے ہوئے بھی کورونا وباء کی وجہ سے أپنے گھروں میں عید کی نماز ادا کریں گے کیونکہ دنیا کے بہت سارے ممالک میں لاک ڈاؤن ہے جس کی وجہ سے  مساجد و عید گاہ میں جمع ہو کرنماز ادا کرنے پر پابندی ہے۔اور ایسی صورت میں گھر میں عید کی نماز ادا کرنے میں کوئی  ممانعت و حرج نہیں ہے خصوصا جب علماء نے اس کے جواز کا فتوى دیدیا ہے۔اور یہ درست بھی ہے کیونکہ اسلام  انسانی جان کی حفاظت کو ہر چیز پر مقدم کرتا ہے اور یہ اسلام کے  پانچ ضروری چیزوں میں سے ایک ہے۔ امید ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان ہر جگہ قانون و  نظام کی اتباع کریں گے اور مخالفت سے قطعی طور پر گریز کریں گے ۔ اور ایک مثالی و نظامی امت ہونے کا ثبوت دیں گے خصوصا ایک ایسے وقت میں جب دشمن چاروں طرف سے ہمارے اوپر أپنی نگاہ جمائے ہوئے ہے اور بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ہے۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔
خیر عید ہر سال آتی  وجاتی ہے ۔اور عید کو عید اسی لیے کہاجاتا ہےکیونکہ وہ لوٹ کے بار بار آتی ہے۔اور ہم میں سے ہر کوئی چھوٹا وبڑا ,مرد وعورت, حاکم ومحکوم ,مالدارو فقیر, عالم و جاہل, لڑکا و  لڑکی غرضیکہ  ہر کوئی عید مناتا ہے ۔ خوش ہوتا ہےاور ہونا بھی چائیے۔ یہ تو اس کا حق ہے جو اللہ نے اس کو دیا ہے۔اسی وجہ سے شریعت نے اس دن کا روزہ حرام قرار دیا ہے۔ اور مسلمانوں کو اس دن کھانے کھلانے ,خوشی منانے و اس کے شیر  کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن کیا کبھی ہم نے غور و فکر کیا ہے کہ حقیقی عید کیا ہے؟کیا ہم نے  کبھی سوچا ہے کہ ایک سچی و اصلی عید کیا ہے؟
اسلامی بھائیو و بہنو:عید تو ہر کوئی مناتا ہے۔ ایک فاسق و فاجر بھی  عید مناتا ہے۔ایک گنہ گار بھی عید کا اہتمام کرتا ہے اور خوش  ہوتا ہے۔ بلکہ  بسا اوقات ایک ایسا شخص جو رمضان میں  ایک دن بھی روزہ نہیں رکھتا ہے وہ عید منانے میں سب سے آگے ہوتا ہے۔حالانکہ غیر روزہ دار کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ روزہ دار  مسلمانوں کے ساتھ عید منائے۔ تو کیا ایسے لوگوں کی حقیقی  عید ہوجاتی ہے اور کیا ایسے لوگوں کو عید منانے  کا حق ہے؟اور اگر  یہ   عید حقیقی  عید  نہیں ہے بلکہ ظاہری عید ہے  تو پھر حقیقی و اصلی عید کیا ہے؟
درج ذیل أفراد کی عیدحقیقی  عید نہیں بلکہ  صرف  ظاہری  عیدہے :
عید ان کی نہیں ہے جو رمضان جیسی عظیم نعمت کا قدر نہیں کرتے ہیں ۔اس کے حقوق کو ادا نہیں کرتے ہیں۔ اس سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں۔ ہر قسم کی معصیت و گناہ میں ڈوبے ہوتے ہیں۔اور اللہ کی مغفرت جیسی انمول چیز سے محروم رہ جاتے ہیں۔
عید ان کی نہیں جو رمضان میں اللہ کی اطاعت سے محروم رہتے ہیں۔شیطان کی اطاعت میں مصروف رہتے ہیں۔گناہوں و معصیتوں میں ملوث رہتے ہیں۔اور جن کی شقاوت و بدبختی کی دعا جبرئیل امین نے کی ہے اور اس پر پیارے نبی نے آمین کہا ہے۔
عید اس کی نہیں جوشرک و بدعت  میں مبتلا رہا۔اللہ کے در کو چھوڑ کر دوسروں کے در پر حاضری دیتا رہا۔جس نے اللہ و اس کے رسول کے طریقہ کو چھوڑ کر کسی ولی یا پیر یا کسی صوفی وغیرہ کے غلط و باطل طریقہ کو اپنا لیا اور اسی پر جما رہا۔
عید  صرف گھر کو سجانے, سنوارنے , خوبصورت بنانے , مزین کرنے اور فرنیچر بدلنے کا نام نہیں ہے۔
عید  یہ نہیں ہے کہ ہم اس دن خوبصورت بہترین نیا کپڑا پہن لیں۔
عید اس کا نام  نہیں ہے کہ اس دن ہم دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر انواع و اقسام کے  لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہوں۔
عید پکنک منانے , سیر و تفریح کرنے  یا ایک دوسرے کی زیارت کرنے کا نام نہیں ہے۔
عید صرف  مسکرانے, مصافحہ کرنے ,گلے ملنے و   ہنسنے کھیلنے سے وابستہ نہیں ہے۔
عید بہترین و قیمتی گاڑی کی سواری کا نام نہیں ہے۔عید زیادہ مال و دولت کمانے سے عبارت نہیں ہے۔
عید ان کی نہیں جو أپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کر تے ہیں۔ اور جو أپنے تصرفات میں شیخی بگھارتے ہیں۔
 ان سب  کی  عید حقیقی  عید نہیں ہے گرچہ وہ ظاہری طور پر   خوشیوں میں ڈوبے رہتے ہیں ۔ نیا و قیمتی لباس زیب تن کیے رہتے ہیں۔خوشبؤوں میں نہائے رہتے ہیں۔ان سب کو أپنے نفسوں کا محاسبہ کرنا چاہئیے ۔ اللہ سے توبہ کریں اور اس کی طرف رجوع کریں۔
 تو پھر حقیقی عید کن کی ہے؟
حقیقی عید ان  لوگوں کی ہے:
حقیقی عید ان کی ہے جنہوں نے رمضان کا عظیم مقصد  " تقوى "  أپنے اندر پیدا کیا۔رمضان کے حقوق کو أچھی طرح ادا کیا۔اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔احترام رمضان میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ گناہوں و معصیتوں سے دور رہا۔ اس طرح سے اللہ کو راضی کیا اور أپنی مغفرت کرالی۔
حقیقی عید تو ان کی ہے جن کی اطاعت و بندگی میں اضافہ ہوا۔ جو ہر قسم کے گناہ سے بچا۔جس نے اللہ سے أپنے گناہ معاف کروا لیے۔
حقیقی عید   تو اس کی ہے جو اللہ و اس کے رسول کی سنت کی طرف پلٹا اور اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔ حقیقی عید تو اس کی ہے جو أپنے گھر میں  قرآن کا منہج قائم کرے۔جو أپنے گھر کو ذکر و أذکار سے منور کرے۔
حقیقی عید تو ان کی ہے جنہوں نے ماہ رمضان المبارک میں أپنے والدین کی خوب خدمت کی۔غریبوں, مسکینوں, یتیموں, بیواؤں کے کام آئے۔ ان کی پریشانیاں دور کیں۔
حقیقی عید تو یہ ہے کہ جو تم سے قطع رحم کرے اس سے صلہ رحمی کرو۔جو تم کو نہ دے تم اس کو دو۔جو تم سے دور بھاگے تم اس سے قریب ہو۔
حقیقی عید تو یہ ہے کہ جو تم پر ظلم کرے تم اس کومعاف کردو ۔ عید تو یہ ہے کہ تم أپنے دل سے بغض و حسد, کینہ و کپٹ کو نکال دو۔
حقیقی عید تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے دلوں  میں سکون و اطمینان بھر دو۔ حقیقی  عید تو یہ ہے کہ اختلافات سے دستبردار ہوجاؤ اور اتفاق و اتحاد کے لیے کام کرو۔
حقیقی عید تو یہ ہے کہ تمھارا دل بالکل صاف ہوجائے ۔ تمھارا ایمان مضبوط ہوجائے ۔ تمھارا یقین زیادہ ہوجائے ۔ تمھارا عزم و حوصلہ جوان ہوجائے۔
 حقیقی عید صرف  بظاہر ہاتھوں کے ملنے  کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقت میں دلوں کے ملنے کا نام ہے۔
معلوم ہوگیا کہ حقیقی عید کیا ہے۔ اب میں حقیقی عید سے متعلق ایک واقعہ ذکر کرہا ہوں۔ اور یہ واقعہ مسلمانوں کے بہت ہی مشہور خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز ( مدت خلافت 99-101 ھ )  کا ہے ۔جو نہایت متقی, پرہیزگار , زاہد اور خدا ترس انسان تھے۔اور اس واقعہ میں نہ صرف ہم  تمام  مسلمانوں بچوں, بوڑھوں, جوانوں کے لیے بلکہ تمام  مسلمان حکمرانوں اور بادشاہوں کے لیے بہت زیادہ عبرت و نصیحت ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ عید کا دن تھا۔لوگ خلیفہ کو عید کی مبارک باد پیش کر رہے تھے۔ جب بڑے لوگ چلے گئے تو  بچوں کی ایک جماعت خلیفہ کو مبارک باد دینے آئی۔انہیں میں ایک لڑکا خلیفہ کا بھی تھا جو پرانا بوسیدہ کپڑا پہنے ہوئے تھا۔ جبکہ دوسرے بچے نیا کپڑا  پہنے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر خلیفہ کے آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ دیکھ کر بچے نے کہا: ابا جان کیا بات ہے؟ أمیر المؤمنین آپ کیوں آبدیدہ ہیں؟ قالَ: يا بُني، أَخشَى أن يَنكَسِرَ قلبُكَ إذا رآكَ الصبيانُ، بهذا الثوبِ الخلقِ؟ قالَ: يا أميرَ المؤمنينَ: إنَّما يَنكَسِرُ قلبُ مَن أَعدَمَهُ اللهُ رضَاهُ، أو عَقَّ أمَّهُ وأباهُ، وإني لأرجو أن يكونَ اللهُ راضياً عني برضاكَ.
أمیر المؤمنین نے جواب دیا: اے میرے لخت جگر مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمھارا دل ٹوٹ نہ جائے جب تمھارے ساتھی تم کو اس پرانے کپڑے  میں دیکھیں۔بچے نے کتنا شاندار و بہترین جواب دیا ملاحظہ فرمائیں۔ بچے نے کہا: اے امیر المؤمنین : دل تو اس کا ٹوٹتا ہے جس کو اللہ کی رضامندی حاصل نہ  ہو۔یا جو اپنے ما ںباپ کا نافرمان ہو۔مجھے امید ہے کہ آپ کی رضامندی کی وجہ سے اللہ بھی مجھ سے راضی ہو۔
 معلوم ہوا کہ  حقیقی عید نیا کپڑا پہننا نہیں ہے بلکہ اللہ کی رضامندی و خوشنودی ہے۔ والدین کی رضامندی ہے۔یہ اتنا زبردست اور شاندار  واقعہ ہے جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ ایک طرف باپ اور بیٹے کا یہ  اعلى کردار ہے۔دونوں ایک دوسرے کے طرز عمل سے راضی ہیں۔ حاکم وقت  اور خلیفہ مسلمین کا یہ زہد  اور پارسائی ہے کہ اس کے پاس عید کے موقع پر أپنے بچوں کے لیے نیا کپڑا خریدنے کے لیے مال و زر نہیں  ہے کیونکہ وہ أپنے کو بیت المال کا مالک نہیں بلکہ أمین سمجھتا ہے۔ وہ صرف أپنے بیٹا کو بیٹا نہیں بلکہ وہ مملکت کے  تمام بچوں کو اپنا بیٹا مانتا ہے لہذا وہ أپنے بیٹوں کے لیے دوسروں کا حق کیسے مار سکتا ہے۔بیٹا  بھی سمجھ دار ہے ۔ وہ أپنے والد کی مجبوری کو سمجھ رہا ہے ۔اس کے پاس نیا کپڑا کے لیے ضد نہیں ہے۔اور دوسری طرف آج کے مسلمان حکمرانوں  اور سر براہوں کا کردار ہے جو اکثر چور , لٹیرے اور غاصب ہیں۔ اور بیت  المال کو أپنی ذاتی ملکیت مانتے ہیں۔ اور  یہ بیماری صرف ہمارے حکمرانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر چھوٹے بڑے مدرسہ, مسجد, تنظیم , جمعیت  و  ادارہ کا بانی  ومہتمم کا بھی یہی حال ہے۔ الا من رحم ربی۔اور آج کل کے نوجوانو کا کیا پوچھنا   وہ تو أپنے کو ماں باپ سے بڑھ کر سمجھتے  ہیں۔ ان میں سے اکثر کے یہاں ادب و احترام ہی نہیں ہے چہ جائیکہ وہ صبر و شکر سے کام لیں اور والدین کے حالات کو سمجھیں, الا ما شاء اللہ ۔ اللہ ہم سب کو نیک و صالح بنائے۔ دین و دنیا دونوں میں کامیاب کرے۔ آمین۔
             اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ أکبر اللہ اکبر و للہ الحمد
 ایک بار پھر آپ سب کو عید مبارک ہو۔برائے مہربانی کامل اسلام پر عمل کریں, شرک و بدعت , رسوم و رواج کو چھوڑ دیں تاکہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہوں۔ وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

3 التعليقات:

avatar

بارك الله فيكم

avatar

محترم ڈاکٹر صاحب السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ آپ کےبھی اعمال حسنہ کو قبوب فرمائے۔اور گھر کے تمام أفراد کو عید کی خوشیاں مبارک ہو۔.. میرا خیال ہے کہ ان دنوں میں جو مضامیں آپ نے تحریر کیا ہےانہیں کتابی شکل دے دیں کافی مفید ہیں و جزاکم اللہ خیر الجزاء و بارک فیکم( شیخ عبد الغفار مدنی, واٹسپ میسیج, بتاریخ چوبیس مئی ۲۰۲۰ ع )