اسلام پرایک عظیم اعتراض اور اس کا مدلل علمی جواب " کافروں کو قتل کرو جہاں پاؤ"


                                      بسم اللہ الرحمن الرحیم
                         
                        اسلام پرایک عظیم  اعتراض اور اس کا  مدلل علمی جواب
                             
                                   " کافروں کو قتل کرو جہاں پاؤ"
                                                                                                                                                        أمن و جنگ سے متعلق بعض اہم اسلامی أصول
                                                                                         پہلی قسط

ہمارے بہت سارے غیر مسلم بھائی جھوٹے پروپگنڈوں سے متاثر ہوکر  اسلام اور مسلمانوں پر بہت سارے نا معقول اعتراض  کرتے ہیں مثلا اسلام انسانی غلامی کو بڑھاوا دیتاہے,عورت اسلام میں مظلوم ہے وغیرہ ۔  اس پرواضح  الزام لگاتے اورصریح  بہتان تراشی کرتے ہیں۔جن میں سے ایک الزام و بہتان قرآن مقدس کی چند آیتوں سے استدلال کرتے ہوئے اسلام پر یہ لگایا جاتا ہے  کہ وہ  غیر مسلموں کو   ناحق بنا کسی وجہ کے کہیں بھی  کسی بھی وقت مارنے, قتل کرنے کا حکم دیتا ہے۔اسلام ان کو دنیا میں جینے کا حق نہیں دیتا ہے۔بطور دلیل وہ کئی آیتوں کو پیش کرتے ہیں ۔ طوالت سے بچنے کے لیے میں ان سب کا  ذکر  یہاں  پر نہیں کرنا چاہتا ہوں ۔لیکن اس سلسلے میں ان کی  سب سے زیادہ مضبوط اور صریح دلیل    آیت کا یہ حصہ  ہے {وَٱقۡتُلُوهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوهُمۡ وَأَخۡرِجُوهُم مِّنۡ حَيۡثُ أَخۡرَجُوكُمۡۚ (بقرۃ/َ 191}  ترجمہ: اور  ان(کافروں)  کو قتل کرو جہاں پاؤ اور ان کو نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے۔
اور ایک دوسری  یہ آیت ہے: {فَإِذَا ٱنسَلَخَ ٱلۡأَشۡهُرُ ٱلۡحُرُمُ فَٱقۡتُلُواْ ٱلۡمُشۡرِكِينَ حَيۡثُ وَجَدتُّمُوهُمۡ وَخُذُوهُمۡ وَٱحۡصُرُوهُمۡ وَٱقۡعُدُواْ لَهُمۡ كُلَّ مَرۡصَدٖۚ فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٰةَ فَخَلُّواْ سَبِيلَهُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ ٥}
ترجمہ: پس جب حرام مہینے گذر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ  اور انہیں پکڑو  اور گھیرواور ہر گھات والی جگہ میں ان کے لیے بیٹھ جاؤ ۔پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں تو انہیں  چھوڑ دو ۔ بلا شبہ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔(توبہ/5)
مذکورہ بالا ان دونوں آیتوں اور اس جیسی کچھ دیگر آیتوں سے استدلال کرتے ہوئے ہمارے غیر مسلم بھائی اسلام پر درج بالا اعتراض کرتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ دیکھو قرآن میں یہ صاف صاف لکھا ہواہے۔ اور آج کل تو شوسل میڈیا اور انٹرنٹ کا زمانہ ہے ۔ لہذ ا یہ جھوٹا  پرچار پہلے سے  اور زیادہ کیا جارہا ہے۔ اور پوری دنیا میں چند جماعتیں و گروپ تو  ایسے ہیں جن کا ۲۴ گھنٹے دن رات کا یہی محبوب  مشغلہ ہے۔ اگر آپ انٹرنٹ وسماجی رابطہ کے وسائل  کا جائزہ لیں تو اس طرح کے لاکھوں آرٹیکلس , ویڈیوز اور کمنٹس وغیرہ مل جائیں گے جن میں شدت کے ساتھ اسلام پر  مذکورہ  اعتراض کیا جاتا ہے۔لیکن کیا اس کے لیے صرف ہمارے غیر مسلم بھائی ہی ذمہ دار ہیں؟
 میرا ماننا ہے کہ اس کے لیے صرف ہمارے غیر مسلم بھائی ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہم پوری دنیا کے مسلمان  بھی  اس میں شریک ہیں  اور ہم مسلمان اس کے پہلے ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ آج کل کے دور میں ہر طرح کے وسائل و ذرائع مہیا ہونے کے باوجود ہم مسلمان  ایک ایک غیر مسلم  تک اسلام کو پہنچانے میں ناکام رہے ہیں۔ ہماری تعداد بھی اس وقت پوری دنیا میں تقریبا دو ارب ہے۔ اگرہر ایک مسلمان زیادہ سے زیادہ  صرف پانچ  چھ غیر مسلم تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا تہیہ کرلے تو بہت آسانی کے ساتھ  چند  دنوں و مہینوں میں  یہ عظیم ذمہ داری ادا کی جا سکتی ہے۔لیکن  اس کے لیے وہی جذبہ اور حرص درکار ہے جو ہمارے پیارے نبی میں تھا۔ آپ کو کافروں کی دعوت و ایمان کی اتنی زیادہ فکر  اور خواہش تھی کہ آپ کو ان کے ایمان نہ لانے سے بہت زیادہ تکلیف ہوتی تھی۔اسی کا تذکرہ قران میں سورہ کہف کی آیت نمبر  6 اور شعراء کی آیت نمبر 3 میں ہوا ہے۔فرمان باری تعالى ہے: لعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (شعراء/3) شاید آپ ان کے ایمان نہ لانے پر  أپنی جان ہلاک کر دیں گے۔اس سے واضح ہے کہ آپ کو انسانیت سے کس قدر ہمدردی اور کتنی زیادہ تڑپ تھی۔ اور یہی ہم سے بھی مطلوب ہے۔ہمارا بھی طرز عمل , لگاؤ, جذبہ وتڑپ ہمارے نبی ہی کی طرح ہونا چاہیے۔ لیکن  ہائے افسوس ہمیں اس کی کوئی زیادہ فکر نہیں ہے لہذا  غیر مسلموں کو دعوت دینے کا کام تو ہورہا ہے لیکن جس اعلى پیمانہ پر ہونا چائیے وہ قطعا نہیں ہے۔بنا بریں اس مقصد کا حصول کافی مشکل ہے۔
خیر یہ ایک ضمنی بات تھی جس کا ذکر میں نے کردیا۔ اب میں اعتراض کی طرف آتا ہوں۔
 جہاں تک مذکورہ بالا اعتراض کا سوال ہے تو یہ اعتراض  ہی بالکل باطل   و غلط ہے۔اس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اور  یہ اسلامی اصول و ضوابط کے مخالف ہے۔بلکہ یہ سراسر الزام و بہتان ہے۔اور اس سے پہلے کہ میں اس اعتراض کا جواب دوں ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام میں جنگ و لڑائی  سے متعلق  چند ضروری باتیں أپنے غیر مسلم بھائیوں کی خدمت میں پیش کردوں  تاکہ اس اعتراض کے جواب کو وہ آسانی سے سمجھ سکیں۔
سب سے پہلی بات جو میں أپنے غیر مسلم بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں  وہ یہ کہ اسلام کے بنیادی مصادر کتاب و سنت ہیں۔اور تمام اسلامی  احکام انہیں سے ماخوذ ہیں۔اور یہ آیات و احادیث ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ اور اگر کسی آیت یا حدیث میں  کوئی چیز مجمل ہے تو اس کی وضاحت کسی  دوسری آیت یا حدیث میں ہوتی  ہے۔اگر کوئی حکم عام ہے تو کسی دوسری آیت یا حدیث سے اس کو مقید کر دیا جاتا ہے۔میرے کہنے کا مطلب آسان زبان میں یہ ہے کہ بہت سارے احکام ایسے ہیں جن کو صرف ایک آیت یا چند آیتوں سے بیان نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے لیے کئی  آیتوں یا احادیث کو  سامنے رکھنا ہوتا ہے۔اس کے پس منظر کو دیکھنا ہوتا ہے  اس کے سیاق و سباق پر غور کرنا ہوتا ہےوغیرہ۔ پھر وہ حکم یا مسئلہ بیان کیا جاتا ہے۔ اب اگر ان سب کی رعایت کے بغیر کوئی حکم بیان کیا جاتا ہے تو  وہ سراسر غلط ہوگا۔ اور یہی  دانستہ  یا نادانستہ غلطی یہاں پر ہمارے غیر مسلم بھائیوں سے ہوتی ہےجو أپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اور  اسلام و مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے وہ کسى آیت کا کوئی  جزء یا مکمل آیت لے لیتے ہیں۔ لیکن اس کے سیاق وسباق , شان نزول پس منظر وغیرہ کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو قرآن یا حدیث میں یہ لکھا ہے۔ اسلام امن کا مخالف ہے۔ وہ کافروں کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے وغیرہ ۔  
میں اس کو ایک  مثال سے واضح کرتا ہوں۔مان لیجیے کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ اسلام میں نماز پڑھنا منع ہے یا نماز ادا کرنے والے کے لیے تباہی و بربادی ہے۔اور یہ قرآن میں لکھا ہوا ہے ۔ اور دلیل میں قرآن کی آیت   لا تقربوا الصلاۃ ( نساء/43) کہ نماز کے قریب بھی مت جاؤ اور فویل للمصلین (ماعون/4) کہ نماز ادا کرنے والوں کے لیے تباہی و بربادی ہےپیش کرتا ہے۔ تو کیا اس کی  یہ بات صحیح ہے؟ہرگز نہیں۔ کیونکہ یہاں پر بھی آدھی بات بتلائی جارہی ہے۔ اس جگہ  بھی آیتوں کو  ان کے سیاق سباق سے جدا کردیا گیا ہے۔ان آیتوں کے بعض أجزاء کو کاٹ  دیا گیاہے تاکہ یہ غلط استدلال کیا جاسکے کہ نماز پڑھنا منع ہے۔لیکن ہم جیسے ہی ان آیتوں کو مکمل  کرتے ہیں ۔ اس کے سیاق و سباق سے جوڑتے ہیں صحیح و درست بات ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ  تباہی و بربادی ان کے لیے ہے جو نماز میں سستی کرتے ہیں اور دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں کیونکہ اس کے بعد اللہ کا فرمان ہے: الذین ہم عن صلاتہم ساہون الذین ہم یراؤون ۔ اسی طرح دوسری آیت میں ہے و لاتقربوا الصلاۃ و أنتم سکارى یعنی نشہ کی حالت میں نماز مت ادا کرو۔ اس طرح کی اور بھی مثالیں  ہیں۔
معلوم ہوا کہ جو لوگ دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں وہ  آیتوں کوکتر بیونت , توڑمروڑ  اور  کاٹ چھانٹ کے پیش کرتے ہیں۔اور  ہمیشہ آدھی بات بتاتے ہیں مکمل حقیقت سامنے نہیں رکھتے ہیں۔اور یہاں پر بھی  اس اعتراض کو صحیح ثابت کرنے کے لیے  یہی کھیل کھیلا  گیا ہے۔
دوسری بات جو میں أپنے غیر مسلم بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں نے از خود جنگ کی شروعات نہیں کی تھی  بلکہ یہ شروعات کافروں نے کی تھی ۔ اور  جب تک مسلمان  مکہ میں رہے ان  کو قطعا جنگ کی اجازت نہیں  دی گئی جب کہ غیر مسلموں نے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم کیا۔ ان کو  ان کے گھروں سےباہر نکال دیا۔ ان کے  مال و جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ کئی ایک شہید کیے گئے۔ان سب کے باوجود مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہیں دی گئی جب کہ بعض مسلمان اس کے حق میں تھے اور وہ جنگ کی اجازت طلب کر رہے تھے( نساء/77)۔معلوم ہوا کہ مسلمان مظلوم تھے اور جنگ ان کے اوپر تھوپا گیا تھا۔اور دنیا کا ہر قانون , ہر مذہب , ہر فکر  اور ہر دستور مظلوم کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا دفاع  کرے۔ جنگ کا جواب جنگ سے دے۔کوئی ایسا دین, مذہب , ملک , قبیلہ , قانون  نہیں ہے جو أپنے پیروکاروں کو اس کی اجازت نہ دیتا ہو۔ اس لیے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ۔اور یہ ایک  شرعی و تاریخی حقیقت ہے جس کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ہے۔
معلوم ہوا کہ جنگ کا آغاز کرنے والے, جنگی مجرم  اور  حملہ آور مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم تھے ۔مسلمانوں پر زبردستی جنگ کو تھوپا گیا۔ان کو جنگ کے لیے مجبور کیا گیا۔ اور بین الاقوامی  قانون کے اعتبار سے بھی جنگ کا مجرم وہی  ہوتا ہے جو اس کی ابتداء کرتا ہے۔
تیسری بات جو میں أپنے غیر مسلم بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بلا شبہ اسلام نے مسلمانوں کو أپنے اوپر حملہ کی صورت میں جنگ کی اجازت دی ہے لیکن ساتھ ہی  اس کے  اصول و ضوابط  بھی متعین کر دئیےہیں۔قوانین و قاعدے  بنا دئیے ہیں۔ اور ان پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔اور  کسی بھی صورت میں مسلمانوں کو جارحیت و زیادتی سے منع کیا ہے۔ اللہ عز وجل کا فرمان ہے: و قاتلوا  فی سبیل  اللہ الذین یقاتلونکم  و لا تعتدوا إن اللہ لا یحب المعتدین (بقرہ/190) اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں  اور زیادتی نہ کرو , اللہ تعالى زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ایک دوسری آیت میں ہے: فمن اعتدى علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدى علیکم , واتقوا اللہ و اعلموا ان اللہ مع المتقین (بقرہ/194) جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو  جو تم پر کی ہے۔اور اللہ تعالى سے خوف کھاؤ اور جان لو کہ اللہ تعالى متقیوں کے ساتھ ہے۔اور احادیث میں مذکور  ہے: نبی کریم جب کوئی لشکر روانہ فرماتے تو یہ نصیحت کرتے کہ اللہ کے نام سے اس کى راہ میں کافروں سے جنگ کرو۔ خیانت نہیں کرنا۔ غداری سے بچنا۔ لاش کا مثلہ مت کرنا۔کسی بچہ , عورت یا بوڑھے یا پادری و بیمار  کو قتل مت کرنا۔ کوئی پھل دار درخت مت کاٹنا۔کوئی اونٹ یا گائے صرف کھانے کے لیے ذبح کرنا۔کسی درخت کو بلاوجہ مت کاٹنا یا اس کو جلانا نہیں۔(بخاری و مسلم)  ان کی  مزید تفصیل کتابوں میں موجود ہے۔
غیر مسلموں کے ساتھ جنگ کی یہ بعض اسلامی تعلیمات ہیں جن پر مسلمانوں نے ہر زمانہ میں مکمل طور سے عمل کیا ہے اور سختی سے ان کو نافذ کیا ہے۔ اب أگر  کوئی ان تعلیمات  پر عمل نہیں کرتا ہے تووہ مجرم ہے اور اسلام اس سے بری ہے۔ اسلام میں کسی کے ساتھ بھی  جارحیت و زیادتی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو لہذا وہ بنا کسی وجہ کے کسی کے قتل کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔۔
چوتھی بات جو میں أپنے غیر مسلم بھائیوں سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلام میں انسانی جان  -مسلم یا غیر مسلم -کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔بلکہ جان کی حفاظت اسلام کے پانچ ضروری چیزوں میں سے ایک ہے۔ اور اسلام کسی بھی صورت میں کسی بھی غیر مسلم کوناحق قتل کرنے کا حکم نہیں دیتا ہے۔ جو شخص اسلام  اور اس کی تعلیمات  سے تھوڑا بہت بھی واقف ہے وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا  ہے۔ تفصیل کے لیے  میرے اسی ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں میرا مضمون : امن عالم اور اسلام
   پانچوین بات اسلام میں اصل امن ہے جنگ نہیں ہے۔ اسلام امن کا داعی ہے۔جنگ کا مخالف ہے۔ اسی لیے اسلام صلح کی بات کرتا ہے اور حالت جنگ میں بھی کافروں کی طرف سے صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔فرمان باری تعالى ہے: وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ  إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ( انفال /61) اگر   ان کا میلان صلح کی طرف ہو تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں۔ اور اللہ پر بھروسہ کیجیے۔یقینا وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ ایک دوسری آیت میں ہے: اگر کوئی منافق یا کافر غیرجانبدار ہے۔ نہ  اپنی قوم کا ساتھ دیتا ہے نہ ہی مسلمانوں کا۔ اور وہ صلح کا طالب ہے  تو تم کو ان سے لڑنے کا کوئی حق نہیں ہے۔(نساء/90) تفصیل کے لیے دیکھیے: تفسیر احسن البیان , سورہ نساء کے آیت نمبر 90 کی تفسیر ۔
اور حدیث میں ہے :  عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيمَ عَبْدِاللهِ بْنِ أَبِي أَوفَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بعْضِ أَيَّامِهِ الَّتِي لَقِيَ فِيهَا الْعَدُوَّ، انْتَظَرَ حَتَّى إِذَا مَالَتِ الشَّمْسُ قَامَ فِيهِمْ، فَقَالَ: «يَا أيُّهَا النَّاسُ، لَا تَتَمَنَّوا لِقَاءَ الْعَدُوِّ، وَاسْأَلُوا اللهَ الْعَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيوفِ».
 ثمَّ قَالَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ، اهْزِمْهُمْ وَانصُرْنَا عَلَيْهمْ»[1]؛ متفق عليه.
ترجمہ: ابو ابراہیم عبد اللہ بن ابو اوفی کی روایت ہے کہ نبی کریم أپنے کسی غزوہ میں تھے جس میں دشمن سے جنگ ہوئی ۔توآپ نے انتظار کیا حتى کہ سورج ڈھل گیا۔ پھر آپ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا: اے لوگو دشمن سے جنگ و مڈبھیڑ کی تمنا مت کرو۔اور اللہ سے عافیت کا سوال کرو۔لیکن جب تمھاری ان سے جنگ ہوجائے تو صبر سے کام لو۔صبر کا دامن تھام لو۔اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ  تلے ہے۔
پھر آپ نے دعا کی کہ اے کتاب کے نازل کرنے والے , بادل کو چلانے والے,لشکروں کو شکست دینے والے  ان کو شکست سے دوچار کر اور ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما۔ بخاری و مسلم
معلوم ہوا کہ دشمن سے جنگ کی تمنا نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے برعکس ہمیں اللہ سے عافیت اور سلامتی کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ اس کے برابر اور کوئی چیز نہیں ہے۔ لیکن جب دشمن سے لڑائی ہوجائے تو ثابت قدم رہنا ضروری ہے۔
ان دلائل سے واضح ہے کہ اسلام صلح و امن کا دین ہے۔شانتی اور پیس کا داعی ہے۔جنگ کا حامی یا داعی نہیں ہے۔اس لیے دشمن کے ساتھ جنگ کی تمنا کرنے سے منع کرتا ہے اور بحالت جنگ بھی صلح کی پیشکش کو قبول کرنے کا حکم دیتا ہے اور غیر جانبدار لوگوں پر حملہ کرنے یا ان کو تنگ کرنے سے روکتا ہے۔دلائل کی روشنی میں یہی قول راجح ہے اور میں اسی کا قائل ہوں۔ گرچہ بعض علماء و فقہاء کا قول اس کے باکل برعکس ہے۔
                                                                                            جاری


التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: