احتساب نفس


                     احتساب نفس
               حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا
دینی و ملی بھائیو:

اللہ عز و جل قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے: یا أیہا الذین آمنوا اتقوا اللہ و لتنظر نفس ما قدمت لغد و اتقوا اللہ إن اللہ خبیر بما تعملون( حشر /18) یعنی اے ایمان والو, اللہ سے ڈ رو  اور ہر نفس یہ دیکھے کہ کل کے لیے اس نے کون سے اعمال کیے ہیں۔ اللہ سے خوف کھاؤ یقینا اللہ تمھارے اعمال سے باخبر ہے۔
ہمارے دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب کا قول ہے : حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا  کہ أپنے نفسوں کا خود ہی محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ اس کا محاسبہ کیا جائے۔ کیونکہ محاسبہ میں بہت زیادہ فائدہ ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کہاں کھڑا ہے؟  اس کا أپنا کیا مقام ہے۔ غلط کر رہا ہے یا صحیح؟ اسے مزید کس چیز  پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وغیرہ
اور ہم سب جانتے ہیں کہ انسان أپنے تمام دنیاوی امور کا محاسبہ کرتا ہے۔اگر وہ بازار کوئی ادنى سا بھی سامان خریدنے جاتا ہے تو پہلے اس کے بارے میں ضروری معلومات لیتا ہے۔اس کی اصلیت و کیفیت معلوم کرتا ہے ۔ پھرمکمل اطمینان کے بعداسے خریدتا ہے۔ اور اگر اسے کوئی بڑا کام در پیش ہو  مثلا گھر تعمیر کرنی ہو یا شادی طے کرنی ہو یا گاڑی خریدنی ہو یا بزنس وغیرہ کرنا ہو تب تو مہینوں اس کے بارے میں غور و فکر کرتا ہے۔ کئی لوگو سے مشورے کرتا ہے ۔ پلان بناتا ہے ۔ ہر زاویہ سے سوچتا ہے۔ أچھا سے أچھا میٹیریل اور مستری فراہم کرتا ہے۔ وغیرہ ۔
تو جب ہم دنیا کے بارے میں اتنا حساب لگاتے ہیں۔بار بار سوچتے اور غور وفکر کرتے ہیں ۔ اور چاہتے ہیں  کہ کسی طرح کی کوئی خرابی یا گڑبڑی نہ ہو تو پھر ہمارا رویہ آخرت کے بارے میں یہی کیوں نہیں ہوتا ہے؟ آخر آخرت کے بارے میں ہم أپنا محاسبہ کیوں نہیں کرتے ہیں جب کہ آخرت بلاشبہ دنیا سے کئی ہزار  گنا بہتر اور افضل ہے بلکہ ان دونوں میں کوئی مقارنہ ہی نہیں ہے۔ کیونکہ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ ان سب کے باوجود آخرت کے بارے میں ہم اتنا بے حس کیوں ہوچکے ہیں؟  آخرت کے متعلق ہمارا ضمیر اتنا مردہ کیوں ہوچکا ہے؟ ہمیں أپنے آخرت کی فکر کیوں نہیں ہے؟
مسلمانو: یہ احتساب نفس کا وقت ہے لہذا ہم سب کو أپنا احتساب کرنا چاہئیے کیونکہ رمضان 1441 ھ کا عظیم بابرکت و مقدس مہینہ ختم ہونے والا ہے۔ چند دن اور باقی ہیں۔اب ہم سب کو أپنے نفس کا محاسبہ کرنا ہے اور جائزہ لینا ہے کہ کیا ہم نے  ماہ رمضان  سے کما حقہ فائدہ اٹھایا؟کیا ہم نے اس مہینہ کے  احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے حقوق کو کامل طور سے ادا کیا؟ کیا ہم نے اس مہینہ میں نمازوں کی پابندی کی؟ رات کا قیام اور قرآن کی تلات کا حق ادا کیا؟ کیا ہم نے أپنے پیارے نبی کی اقتداء کرتے ہوئے  غریبوں اور مزدوروں کی مدد کی  کیونکہ آپ رمضان کے مہینہ میں بہت زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے؟ اس مہینہ کی خاص غرض و غایت تقوی کو أپنے اندر پیدا کیا؟ کیا اس مہینہ کو پاکر ہم نے اپنی مغفرت کرالی؟ کیا ہم نے حقیقت میں روزہ رکھا؟ جھوٹ, غیبت, چغلی , حرام کمائی, ظلم وغیرہ سے بچے؟
سوچئے ۔ غور و فکر کیجیے ,کیا ہم معاذ اللہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں  جن کا تذکرہ اس حدیث میں ہوا ہے: عن أبی ہریرۃ قال قال رسول اللہ  " رب صائم ليس له من صيامه إلا الجوع ، ورب قائم ليس له من قيامه إلا السهر " رواہ ابن ماجۃ وہذا لفظہ , حکم المحدث الالبانی : حسن صحیح , ورواه النسائي وابن خزيمة في صحيحه ، والحاكم ، وقال : صحيح على شرط البخاري.
ترجمہ: حضرت ابوہریہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:  کتنے ایسے روزہ دار ہیں  جن کو روزہ سے بھوک کے علاوہ اور کچھ نہیں حاصل ہوتا ہے۔اور کتنے قیام کرنے والے ایسے ہیں جن کو رات جاگنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا ہے۔( ابن ماجہ/ 1690 ) علامہ البانی نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
 سوچئے اور فیصلہ کیجیے۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔ خود سے أپنے نفس کا محاسبہ کیجیے۔حساب آپ کو کرنا ہے۔ ۔اگر فیصلہ مثبت نہیں ہے۔ حساب نفی میں ہے  تو اب بھی وقت ہے۔  سنبھل جائیے۔ چند دن اور ہیں۔ہوش کے ناخن لیجیے اور   اس انمول نعمت کی قدر کیجیے ۔ آئندہ سال  آپ کو یہ بیش بہا  نعمت حاصل ہوگی یا نہیں کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے؟   موت آپ کے انتظار میں ہے۔ کب آجائے کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے۔غفلت میں پڑے رہنا ہوشیاری اور عقلمندی نہیں ہے بلکہ سراسر جہالت اور سفاہت ہے۔
لہذا  اللہ تعالى سے خالص توبہ کیحیے ۔ اس سے معافی مانگیے اور ابھی سے خسارہ و نقصان کی تلافی میں لگ جائیے۔
 اللہ تعالى ہم سب کو  توفیق دے۔ آمین

  


التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

2 التعليقات:

avatar

آمين ثم آمين
جعلنا الله واياكم من عتقاء شهر رمضان المبارك

avatar

محترم جناب عبد المنان محمد شفیق مکی صاحب حفظہ اللہ ورعاہ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مضمون احتساب نفس نظر نواز ہوا پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ فی زمانہ ایسے مضامین کی کافی ضرورت ہے کیونکہ آج کل مسلم معاشرہ کا احتساب نفس سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نا ہی کسی کو اس کی کوئی فکر ہے بلکہ اکثر لوگ دنیا کے سرسبز وادیوں میں بھٹک کر رہ گئے ہیں بس اللہ تعالیٰ ہدایت دے کہ ہم میں کا ہرشخص اپنے نفس کا محاسبہ کرے اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کے اس کاوش کو شرف قبولیت عطا کرے آمین یارب( شیخ اکرام الحق, واٹسپ میسیج بتاریخ 22 مئی 2020ع بوقت 6:26 ص )