عائشہ کی خودکشی: ذمہ دار کون؟ أسباب و وجوہات, حلول و علاج

         عائشہ کی خودکشی: ذمہ دار کون؟



                                     أسباب و وجوہات, حلول و علاج

آج کل عائشہ کی خود کشی بہت زیادہ زیر بحث ہے,  ہر مجلس میں اسی پر گفتگو ہو رہی ہے,  سوشل میڈیا میں خوب اس کا چرچا ہے۔ ہر کوئی اس موضوع کے متعلق أپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے, جہیز کا موضوع ایک بار پھر بہت شد و مد کے ساتھ موضوع گفتگو ہے, ہر کوئی اس کی مذمت کر رہا ہے, اور کرنی بھی چاہئیے کیونکہ جہیز کا اسلام سے ذرہ برابر کوئی تعلق نہیں ہے, یہ ایک ہندوانہ رسم و رواج ہے, سراسر حرام ہے, اور اب تک نہ جانے کتنی معصوم مسلم خواتین اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں, یہ أپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یہ ماضی میں  ہوتا رہا ہےاور آئندہ بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا, اس پر چند جملے لکھ دینے, بول دینے, مذمت کردینے, قرار داد پاس کردینے سے یہ معاملہ حل ہونے والا نہیں ہے, اس کے لیے ٹھوٍ س  عملی اقدام کی ضرورت ہے جس کی آج کے مسلمانو میں بے حد کمی ہے۔

اس خودکشی, اس کے اسباب و وجوہات پر میں اپنا نقطہ نظر  بیان کر رہا ہوں , اور اس کا حل بھی پبش کر رہا ہوں  جس پر عمل کرکے اس مشکل سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان شاء اللہ

أسباب و وجوہات:

میری رائے میں اس خودکشی کا کوئی واحد ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس خودکشی کے بہت سارے عوامل و أسباب ہیں ,   اور ہم سبھی اس کے  ذمہ دار ہیں جن میں خود عائشہ, اس کا شوہر, اس کے والدین پھر ہمارا سماج و معاشرہ اور ہم علماء کرام بھی اس میں شامل ہیں۔بلاشبہ ہم سبھی پر  اس کی  ذمہ داری عائد ہوتی ہے ,ہم میں سے کوئی بھی أپنے کو اس  ذمہ داری سے الگ نہیں کر سکتا ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔

1-    عائشہ کے والدین

 عائشہ کی خودکشی کے أسباب میں سے ایک اہم سبب  اس کے والدین ہیں۔ کیونکہ والدین کے گود میں ہی بچہ پلتا , بڑھتا و جوان ہوتا ہے, ماں کی گود ہی اس کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے, بچہ کی تعلیم و تربیت کی اولین ذمہ داری اس کے ماں باپ کی ہوتی ہے۔بلا شبہ  عائشہ  کے والدین نے اس کو تعلیم سے نوازا اور اس کا ارادہ اس کے والد کے بقول پی أیچ ڈی کرنے کا تھا, بہت خوشی کی بات ہے کہ والدین أپنی بیٹی کی تعلیم کے لیے بہت فکر مند تھے, ان کا یہ جذبہ قابل ستائش و قابل قدر ہے, لیکن یہاں پر سوال یہ ہے کہ جس طرح ان کو اپنی بیٹی کی تعلیم کی فکر تھی کیا اسی طرح انہوں نے اپنی بیٹی کی اسلامی تعلیم و تر بیت کی فکر کی, بلا شبہ اس کا جواب نفی میں ہے, کیونکہ اگر والدین نے أپنی بیٹی کو عصری تعلیم کے ساتھ ضروری و مناسب  دینی تعلیم و تربیت سے نوازا ہوتا تو بلاشیہ یہ خوفناک و افسوسناک واقعہ نہ پیش آتا اور اس کو ٹالا جا سکتا تھا کیونکہ اسلامی تعلیم و تربیت میں ہر چیز کا حل موجود ہے۔ کیونکہ اسلام ہمیں مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا سکھاتا ہے, ان کا حل بتاتا ہے, ان کے سامنے سرنڈر کرنا نہیں سکھلاتا ہے, مایوسی سے باہر نکالتا ہے, مشکل سے مشکل ترین حالات کے ساتھ زندگی گذارنا سکھاتا ہے۔  

2- عائشہ کا شوہر و عائشہ بذات خود

عائشہ کی خود کشی  کا بنیادی بلکہ ڈارکٹ سبب اس کا شوہر عارف ہے جس نے اللہ کی اس عظیم و انمول نعمت کی قدر نہیں کی,   کیونکہ اب تک خبروں سے جو کچھ بھی سامنے آیا ہے اس سے اس کے أپنی بیوی کے ساتھ برے و ظالمانہ برتاؤ کا ہی پتہ چلتا ہے, اس کو أپنے شوہر سے کوئی محبت ملی ہی نہیں ,  اس کا اخلاق بھی أچھا نہیں تھا, غیر لڑکی سے تعلق اور اس سے أپنی بیوی کے سامنے ہی گفتگو  اس کے اخلاقی دیوالیہ پن و گھٹیا پن کو ظاہر کرتا ہے, اوپر سے جہیز کا مطالبہ ,  ظاہر ہے کہ ان تمام چیزوں سے نفسیاتی طور پر  عائشہ بری طرح ٹوٹ گئی , اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا, اس کو زندگی میں کوئی امید باقی نہیں رہی, لہذا اس نے خود کشی کا فیصلہ کیا۔

 اس طرح سے اگر دیکھا جائے تو اس خودکشی کا ڈارکٹ سبب خود اس کا شوہر ہے جس نے اپنی بیوی پر کوئی توجہ نہیں دی , اس کو پیار نہیں دیا اور اوپر سے اس پر ظلم ڈھایا۔اس طرح اس نے اس کی ازدواجی  زندگی کو جہنم بنادیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

 خود عائشہ پر بھی کسی نہ کسی حد تک  اس خودکشی کی ذمہ داری عائد ہوتی  ہے کیونکہ  یقینا و ہ ایک عاقلہ بالغہ  شادی شدہ لڑ کی تھی , اس کی ذمہ داری ہی نہیں  بلکہ اس کے اوپر فرض تھا  کہ وہ اسلامی تعلیمات خصوصا فیملی اور عائلی  نظام سے متعلق  اسلامی نظام و قوانین کا مطالعہ کرتی, اگر وہ خود مطالعہ نہیں کر سکتی تھی تو وقتا فوقتا علما و عالمات سے اس مسئلہ میں رجوع کرتی , سوال یہاں پر یہ ہے کہ کیا اس نے أپنی پریشانی و پرابلم کو کسی سے شیر کیا, کیا اس نے یا اس کے والدین نے علماء سے رجوع کیا , ان کی رائے لی, ازدواجی اختلاف کے سلسلہ میں شریعت کی رائے جاننے کی کو شش کی؟ اس پر کتنا عمل کیا؟ یا صرف وہ خود ہی اکیلے اس نازک و حساس مسئلہ سے جوجھتی رہی, اس کے خلاف  تنہا  لڑتی رہی اور مقابلہ کرتی رہی  اور دل ہی دل میں کڑھتی رہی , اور آخر ایک دن اس کے سامنے اس نے گھٹنےٹیک دئیے اور انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی جو خودکشی کی شکل میں بر آمد ہوا۔

قندیل میں  شائع  2 /  مارچ 2021 ع کی خبر ہے  کہ اس کا شوہر عارف عائشہ کی موجودگی میں ہی أپنی گرل فرینڈ سے ویڈیو پر گفتگو کیا کرتا تھا, اور شادی سے پہلے ہی اس کا کسی لڑکی سے تعلقات تھے ۔ اور اسی  پر خرچ کرنے لیے وہ پیسہ کا مطالبہ بھی کرتا تھا, اب سوال یہ ہے کہ اگر لڑکا اس شرمناک  گناہ میں مبتلا  تھا, اس کا کسی لڑکی سے تعلق تھا, تو پھر عائشہ نے أپنی شادی ختم کیوں نہیں کی اور پھر وہ خاموش کیوں رہی, میری نظر میں اگر عائشہ کو اسلامی تعلیمات و احکام کا علم  ہوتا تو وہ قطعا اس بے حیاء لڑکے کو برداشت نہیں کرتی اور اس سے الگ ہوجاتی , اس سے طلاق کا مطالبہ کرتی اور اگر وہ طلاق سے انکار کرتا تو وہ خلع لے سکتی تھی , نہیں تو مسئلہ کے حل ہونے تک أپنے ما ںباپ کے یہاں آکے آرام سے زندگی گذار سکتی تھی, ہمارے سماج و معاشرہ میں لیسا ہوتا بھی ہے , یہ کوئی نئی یا انوکھی چیز نہیں ہے, لیکن عائشہ نے یہ سب کچھ بھی نہیں کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ یکسر اسلامی تعلیمات سے نا واقف تھی ورنہ وہ ضرور ان اقدامات کے بارے سوچتی اور خودکشی کا فیصلہ نہ کرتی ۔

3-  ہمارا غیر اسلامی سماج و معاشرہ  اور مطلقہ کے بارے میں اس کا نقطہ نظر

ہمارا سماج و معاشرہ بھی عائشہ کی اس خودکشی کا ذمہ دار ہے اور اس کا بھی ایک بہت بڑا  ہاتھ ہے بلکہ اگر تسلیم کر لیاجائے کہ عائشہ کچھ نہ کچھ تو  اسلامی تعلیمات سے واقف تھی تو پھر پوری کی پوری ذمہ داری ہمارے سماج و معاشرہ کی ہے, کیونکہ ہمارے  سماج و معاشرہ کا مزاج  عموما  غیر اسلامی ہے  اور خصوصا مطلقہ عورت کے بارے میں اس کا نقطہ نظر انتہائی خراب  و بیہودہ ہے,   کیونکہ یہ ایک ایسا سماج ہے جہاں پر مطلقہ عورت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے, اس کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے,  طلاق کی ساری ذمہ داری عورت پر ڈال دی جاتی ہے خواہ اس کی  کوئی  غلطی ہی  نہ ہو, مطلقہ عورت اور اس سے شادی  کو بہت ہی  معیوب  و برا  تصور  جاتا ہے,   اس کی دوبارہ شادی میں بہت پریشانی ہوتی ہے۔ایک مطلقہ عورت پر سماج کا نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے, وہ بدنامی سے ڈرتی  ہے, بے عزتی سے خوف کھاتی ہے, أپنے کو والدین پر بوجھ تصور کرتی ہے, اسی فکر و غم کے ساتھ گھٹ گھٹ کے زندگی گذارتی ہے۔لہذا بعض عورتیں سوچتی ہیں کہ اس طرح زندگی گذارنے سے مر جانا ہی بہتر ہے۔

  وہیں دوسری طرف عموما ہمارے سماج و معاشرہ میں مرد کا بول بالا ہے, مرد میں اگر چہ بہت ساری خامیاں و کمیاں ہوں تو  عام طور سے اس کو نظر انداز  کردیا جاتا ہے اس کی شادی بھی  دوبارہ بہت جلدی ہوجاتی ہے, کتنے مجرمین ہیں جن کی شادی بہت آسانی سے ہوجاتی ہے اور سماج ان کو قبول بھی کرلیتا ہے۔ لیکن عورت کی معمولی غلطی پر اس کی گرفت کی جاتی ہے, اس کے بارے میں بے انتہا تحقیق کی جاتی ہے,  اور اس کی زندگی جہنم بنا دی جاتی ہے ,لوگو کی أکثریت مرد کے بجائے عورت پر ہی انگلی اٹھاتی ہے۔  یقینا  سماج و معاشرہ کے اسی دباؤ کے ڈر سے عائشہ نے یہ انتہائی قدم اٹھایا اور خودکشی کا فیصلہ کیا۔

جہیز بھی اس کا ایک سبب ہوسکتا ہے  کیونکہ یہ لعنت ہمارے سماج میں بہت زیادہ ہے , اور اس کاچلن و رواج تقریبا ہر جگہ ہے, اور اس کی بھینٹ ہماری بہت ساری مسلمان مائیں و بہنیں چڑھ چکی ہیں,  اور اب بھی  اس کا شکار ہو رہی ہیں , جہیز کے مطالبہ کی صورت میں شادی کو ختم کردینا ہی ایک اچھا حل ہے, اور والدین کو أپنی بیٹیوں کی شادی بھیک مانگنے والوں سے تو قطعا نہیں کرنی چائیے۔اگر تمام والدین یہ فیصلہ کرلیں تو جہیز کی لعنت پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔

ظاہر ہے کہ یہ تمام غیر اسلامی تصورات و رسوم وراج ہندؤں سے ہمارے اندر در  آئی ہیں  جن کو ختم کرنے کی سنجیدہ کو شسیں بہت کم ہوئی ہیں اور علماء کا موقف بھی بہت کمزور رہا ہے, اگر شروع سے ان پر دھیان دیا جاتا  تو آج یہ نوبت  پیش نہ آتی , ان کے خلاف  منظم طور پر برابر و لگاتار کام کرنے کی ضرورت ہے, وقتی طور پر عمل کرنے سے کوئی خاص فائدہ ہونے والا نہیں ہے جیسا کہ مسلمانو کا مزاج ہے, آج بھی مسلمان اس مسئلہ کو لیکر بہت جوش میں ہیں لیکن چند دنوں کے بعد سب کا جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا اور تقریبا سب ہی اس موضوع کو بھول جائیں گے گویا کہ کچھ ہوا ہی نہیں تھا,  کیونکہ اس سے پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے, مرد کے ظلم و ستم اور جہیز کی بھینٹ ماضی میں بہت  ساری لڑکیاں و بیٹیاں چڑھ چکی ہیں  لیکن حالات میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے,  اس کے لیے ٹھوس عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے, بغیر عمل کے قول کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہوتا ہے,  اسی وجہ سے سید احمد بن محمد عرفان رحمہ اللہ  نے  اس کے خلاف تحریک چلائی تھی اور انہوں نے خود أپنے بھائی کی بیوہ سے شادی کرکے عملی نمونہ پیش کیا تھا۔آج پھر اسی کی ضرورت ہے۔

یہاں یہ ذکر  کر دینا  بے محل نہیں بلکہ بر محل و بہت ہی موزوں ہوگا کہ ہمارے سماج و معاشرہ کی اسلام و اسلامی تعلیمات سے محبت وأپنائیت ,  دلچسپی و اہتمام کا عالم یہ ہے کہ 95 فیصد سے زائد مسلمان بچے عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں , مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والو کی تعداد  صرف چار فیصد ہے, بلا شبہ عصری تعلیم حاصل کرنا اسلام میں منع نہیں ہے بلکہ ضرورت کے لحاظ سے واجب و ضروری ہے, اور ایک قابل مستحسن قدم ہے لیکن عام طور سے  انہیں بچوں کے والدین کو اسلامی تعلیم سے قطعا دلچسپی نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اس کی طرف توجہ کرتے ہین, اور اگر کچھ والدین أپنے بچوں کو اسلامی تعلیم دلاتے بھی ہیں تو وہ قرآن ناظرہ سے آگے نہیں بڑھتا ہے, اسی پر بس نہیں بلکہ والدین أپنے بچوں کی عصری و ماڈرن تعلیم پر تو خوب خرچ کرتے ہیں لیکن اسلامی تعلیم پر خرچ کرتے ہوئے ان کا سینہ تنگ ہوجاتا ہے, ان کا کلیجہ پھٹتا ہے, اور ان کی پوری کوشس  ہوتی ہے کہ اسلامی تعلیم مفت یا کم ازکم خرچ میں مل جائے تو بہت اچھا ہوگا۔اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی ہمیں کوئی قدر نہیں ہے, اسلامی تعلیمات کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے, یہ نہ صرف  اسلامی تعلیم  اور اس سے وابستہ علماء, حفاظ , مفتیان وغیرہ کی توہین ہے بلکہ  سراسر اسلام و دین کی  بھی بے قدری اور توہین ہے۔

 ظاہر ہے کہ جب ہمارے سماج و معاشرہ کا یہ رویہ ہو تو وہ پھر اسلامی کیسے بن سکتا ہے,  اور جب غیر اسلامی سماج و معاشرہ ہوگا تو اس میں اس طرح کے حوادث و و اقعات کا واقع ہونا کوئی بعید بات نہیں ہے۔

4-   ہم علماء کرام کا کمزور کردار

 اس خود کشی کی ایک اہم وجہ ہم علماء کرام اور ہمارا سماج و معاشرہ میں کمزور دعوت و کردار ہے, سچ پوچھا جائے تو ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقہ سے ادا ہی نہیں کیا ہے۔علماء کرام جو وارثان انبیاء ہیں وہ بذات خود بہت ساری برائیوں و خرابیوں میں مبتلا ہیں۔ مالی بد عنوانیاں و بگاڑ ان کے یہاں بھی موجود ہیں۔ وہ خود أپنے بچوں و بچیوں , بہنوں و بیٹیوں کی شادی میں غیر اسلامی رسوم و رواج پر عمل پیرا ہیں , ان میں بہت سارے جہیز دیتے و لیتے ہیں , بارات جاتے ہیں, مختلف غیر اسلامی رسوم و رواج پر عمل کرتے ہیں, ان کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات نہیں کرتے ہیں,  وہ ایسی شادیوں کا بائیکاٹ نہیں کرتے ہیں جن میں جہیز کا مطالبہ ہوتا ہے یا بارات جاتی ہے ۔ وغیرہ , لہذا اکثر علماء نے أپنے کو ایک رول ماڈل کی حیثیت سے سماج و معاشرہ کے سامنے  پیش ہی  نہیں کیا ہے تاکہ عوام ان کی اقتداء کریں۔

 اس کے علاوہ مختلف اسلامی تنظیموں و جماعتوں اور ان کے رہنماؤں  کا کردار بھی  اس سلسلے میں بے حد کمزور و خراب  ہے ,ان کی بھی وہی حالت ہے جو علماء کی ہے,  وہ بھی سماج و معاشرہ  کا مقابلہ کرنے کے بجائے کافی حد تک  اس کے ساتھ چلتے ہیں, ایسی صورت میں ایک اسلامی سماج کیسے تشکیل پا سکتا ہے  اور ایک دینی معاشرہ کیسے پروان چڑھ سکتا ہے, اور ایک غیر اسلامی مزاج والے سماج و معاشرہ میں اس طرح کا حادثہ پیش آنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔

معلوم ہوا کہ عائشہ کی خود کشی کا کوئی واحد سبب نہیں ہے اور نہ کوئی تنہا ذمہ دار ہے بلکہ ہم سب ذمہ دار ہیں, ہاں اتنا ضرور ہے کہ کوئی زیادہ ذمہ دار ہے تو کوئی کم ذمہ دار ہے,  کسی کی ذمہ داری زیادہ ہے کسی کی کم ہے لیکن ذمہ دار ہر کوئی ہے,  اور اگر ہم میں سے ہر کوئی أپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح انجام دے  تو بہت حد تک بہت ساری سماجی برائیوں   مثلا جہیز, بارات ,  لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا, ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا, مطلقہ عورت کو حقیر سمجھنا ,  خودکشی   اور اس کے اسباب پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اور باہمی تعاون سے ہی سماجی مسائل حل ہوسکتے ہیں  تنہا آدمی کچھ نہیں کر سکتا ہے۔

حلول و علاج:

اب سوال یہ ہے کہ ان سماجی برائیوں کے حلول کیا ہیں, ان کا علاج کیا ہے؟   ان  کو کس طرح کنٹرو ل کیا جا سکتا ہے, بلا شبہ ان میں سے  کچھ کا تذکرہ اوپر ضمنا آچکا ہے, مزید صورتوں کا ذکر یہأن کیا جا رہا ہے,  اس کے لیے ہمیں درج ذیل ٹھوس عملی  اقدامات کرنے ہوں گے:

1-                        دینی  تعلیم و تربیت: ہر مسلمان ماں باپ پر فرض ہے کہ وہ أپنے بچوں و بچیوں کی دینی تربیت کرے, اور اس کو بنیادی و ضروری اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائے,  اس میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہ کرے, کیونکہ دین میں ہر مسئلہ کا حل ہے, انسانی زندگی کا   کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کا دین میں حل نہ ہو۔دینی تعلیمات سے انسان کو زندگی گذارنے کا ڈھنگ  و سلیقہ معلوم ہوتا ہے,  مشکلات و مصائب کا مقابلہ کرنے و ان سے باہر نکلنے کی راہ معلوم ہوتی ہے,  زندگی جینے کا حوصلہ ملتا ہے, صبر کی طاقت پروان پڑھتی ہے۔ وغیرہ

2-   فیملی سے متعلق اسلامی  قوانین و نظام سے آگاہی: ضروری ہے کہ تما م مسلمانو کو خاندان و فیملی سے متعلق اسلامی نظام و قوانین سے آگاہ کیا جائے,  خصوصا ان نوجوان لڑکوں  و لڑکیوں کو  جو عنقریب شادی کرنا چاہتے ہوں, ان کے لیے پندرہ روزہ یا  ایک ماہ کا کورس تیار کیا جائے اور ہر مسجد و مدرسہ ,  اسکول و کالج  میں اس کی  تعلیم   کا انتظام کیا جائے۔ یہ سماج و معاشرہ کی ذمہ داری ہے کہ اس کا مکمل خرچ برداشت کرے  اور اس کو خوب زیادہ عام کرے تاکہ عموما  سب  مسلمان اور  خصوصا ہمارے نوجوان اس سے آگاہ ہوں , ان کے اندر بیداری پیدا ہواور اختلاف کی صورت میں اسلامی طریقہ سے حل نکالا جاسکے۔

3-   اسلامک ویکنڈ اسکول: چونکہ انڈیا میں 96 فیصد مسلمان بچے عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں لہذا وہ اسلامی تعلیم و تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس کمی کو دور کرنے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ علماء کی مدد سے زیادہ سے زیادہ اسلامک ویکنڈ اسکول کھولے جائیں, جو ہفتہ میں صرف دو دن کام کریں اور یہ غیر اسلامی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے ساتھ خاص ہوں ۔ جہاں اردو و انگلش دونو زبان میں بنیادی اسلامی تعلیم دی جائے,  طلباءء کو دعائیں و نماز سکھلائی جائے, اس کے لیے موجودہ مساجد ومدارس, اسکول و کالجز   کو بھی استعمال  کیا جاسکتا ہے, الگ سے بلڈنگ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے,  سماج کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے اسکول ونصاب کی بڑے  پیمانے پر انتظام کرے اور اس کا خرچ برداشت کرے خصوصا مالدار و اصحاب ثروت افراد آگے آئیں اور دل کھول کر اس پلان میں حصہ لیں ۔

اس سے سماج و معاشرہ میں اسلامی بیداری پیدا ہوگی اور لوگو کا مزاج اسلامی بنے گا۔

4-   علماء کرام کا کردار: سماج کو بدلنے اور اس سے برائیوں کو ختم کرنے کے لیے علماء کو آگے آنا ہوگا۔ ان کو ایک مضبوط, ٹھوس و متحدہ موقف اختیار کرنا ہوگا۔ پہلے ان کو خود أپنے کی اصلاح کرنی ہوگی, سماج میں رائج غیر اسلامی رسوم و رواج کو چھوڑنا ہوگا, عمل کرکے مثال پیش کرنی ہوگی اور پھر ان رسوم و رواج پر عمل پیرا لوگوں کا سختی کے ساتھ بائیکاٹ کرنا ہوگا۔

اگر ہر علاقہ کے علماء متفق ہو کر اپنی یونین بنا لیں اور رسوم و رواج پر عمل پیرا مسلمانو کا بائیکاٹ کریں, بارات  نہ جائیں, نکاح نہ پڑھائیں وغیرہ تو اس کا سماج و معاشرہ پر کافی اچھا اثر ہوگا۔ اسی طرح علماء کو اپنے اپنے علاقہ میں ان غیر اسلامی رسوم و رواج,   عادات و تقالید, افکار و تصورات کے خلاف تحریک چلانی ہوگی ۔ ہمیشہ ان کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی تب کہیں جاکر ان پر قابو پایا جاسکتا ہے, وقتی اقدام کا فائدہ وقتی ہوتا ہے اس کا کوئی پائیدار حل نہیں نکلتا ہے۔

میری رائے میں یہ بہترین فائدہ مند حلول ہیں  اگر ان  پر عمل کیا جائے  تو اس کے بہت جلد مثبت نتائج بر آمد ہوں گے کیونکہ تعلیم کے بغیر کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔تعلیم ہی تبدیلی کا سب سے بہتر و نفع بخش ذریعہ اور وسیلہ ہے۔

طوالت موضوع کے لیے معذرت ہے۔

و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

1 التعليقات: