سچ و جھوٹ کا فرق اور ان کا انجام

 

                          سچ و جھوٹ کا فرق اور ان کا انجام

حدیث: عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : عليكم بالصِّدقِ فإنَّ الصِّدقَ يَهدي إلى البرِّ وإنَّ البرَّ يَهدي إلى الجنَّةِ وما يزالُ الرَّجلُ يصدقُ ،ويتحرَّى الصِّدقَ حتَّى يُكتبَ عندَ اللهِ صدِّيقًا وإيَّاكم والكذبَ فإنَّ الكذبَ يَهدي إلى الفجورِ، وإنَّ الفجورَ يَهدي إلى النَّارِ ،وما يزالُ العبدُ يَكذبُ ويتحرَّى الكذبَ حتَّى يُكتبَ عندَ اللهِ كذَّابًا۔(صحیح ترمذی/1971, علامہ البانی نے اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے, بخاری /6094 و مسلم /6639 )

معانی کلمات:

 علیکم : الزموا یعنی لازم پکڑو۔

صدق: یہ کذب کا ضد ہے  جو  واقعہ و حقیقت کے مطابق کسی چیز کی  خبر دینا ہے ۔

بر: یہ ہر قسم کی نیکی و خیر کو شامل ہے  ، بشمول اچھے کام کرنا اور برے کاموں کو چھوڑنا، یہ مستقل نیک اعمال کے لیے استعمال ہوتا ہے جو موت تک جاری رہتے ہیں۔کثرت خیر پر بولا جاتا ہے, اسی سے البر (باء پر فتحہ)بھی ہے جو اللہ کا ایک نام ہے یعنی بہت زیادہ خیر و احسان کرنے والا۔

یتحری: یہ حرى سے مشتق ہے, اس کے کئی معانی ہیں جیسے :قابل استعمال کو طلب کرنا, دو چیزوں میں سے اولی و بہتر کو طلب کرنا,  تحرى الامر: قصد کرنا اور فضیلت دینا, اہتمام کرنا , تحرى بالمکان: ٹھہرنا

یکتب:  یحکم کے معنى میں ہے یعنی  اس کے حق میں اس صفت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس کو وہی ملتا  اور حاصل ہوتا ہے جو ان کو ملتا ہے ۔ 

إیاکم:یہ در اصل ایا ہے  اور یہ وہ حرف ہے جو ضمائر منصوبہ منفصلہ کے شروع میں لگایا جاتا  ہے اور اس سے متکلم , مخاطب و غائب  تمام ضمائر متصل ہوتے ہیں , ڈرانے و تنبیہ کے لیے استعمال ہوتا ہے , بمعنى  احذروا و اجتنبوا  ہے یعنی بچو, دور رہو۔

کذب یعنی جھوٹ: یہ ایسی بات بتانا ہے جو حقیقت و واقعہ  کے خلاف ہو۔

فجور: اللہ کی اطاعت کو چھوڑ دینا اور اس کی  نافرمانی کرنا فجور ہے, ہرقبیح عمل اور ہر گناہ فجور ہے ۔اس میں ہر قسم کی برائی داخل ہے۔  

بہت بڑا جھوٹا: وہ شخص ہے جو بار بار جھوٹ بولتا ہے یہاں تک کہ جھوٹ  اس کی پہچان بن جاتی ہے اور اس کی عادت و فطرت ہوجاتی  ہے۔(موقع موسوعۃ الاحادیث النبویہ ,مصباح اللغات و الوکہ)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے  وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: سچائی کو لازم پکڑو  کیونکہ سچ  ہر قسم کی نیکی کی طرف لے جاتا ہے , اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے, اور جب کوئی شخص برابر سچ بولتا ہے اور وہ سچ کا قصدو  اہتمام کرتا  ہے  تو وہ اللہ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ بولنے سے بچو  کیونکہ جھوٹ برائی  کی طرف لے جاتا ہے, اور برائی حتمی طور پر جہنم کی طرف لے جاتی ہے ,  اور جب کوئی بندہ ہمیشہ  جھوٹ بولتا  ہے اور اس کا قصد و اہتمام کرتا ہے  تو اسے اللہ کے یہاں بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے ۔

 شرح: دین اسلام میں عمدہ و اچھے اخلاق کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے ,  اس کو اپنانے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے, اس پر کافی  زور دیا گیا ہے, اس کے فوائد و منافع بتائے گئے ہیں  , اس کے بہتر انجام کی خبر دی گئی ہے  اور اچھے اخلاق والے کی بہت زیادہ تعریف و توصیف کی گئی ہے, جب کہ اس کے برعکس برائی و برے اخلاق کی بہت زیادہ مذمت  کی گئی ہے, اس سے بچنے اور دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے, اس کے انجام بد سے ڈرایا گیا  ہے  اور برے اخلاق والے کی شدید مذمت و ملامت کی گئی ہے  ۔ ان سب کے بارے میں  بکثرت نصوص کتاب و سنت میں وارد ہوئے ہیں ۔ سردست مجھے یہاں صرف دو اخلاق صدق و کذب کے بارے میں گفتگو کرنی ہے ۔(راقم)

صدق یا سچ بولنا  ایک بہت ہی عمدہ, شاندار  اور بلند مقام و مرتبہ والا  بہترین  اخلاق ہے، اور دونوں جہانوں میں کامیابی  اور نجات کی سب سے بڑی وجہ ہے، اس کا بہت زیادہ ثواب ہے  اور اس کا انجام بہت  ہی اچھا ہوتا ہے, اور صدق  کی اہمیت، اس کے اعلیٰ درجہ اور اس کے عظیم اثرات کی وجہ سے  اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسا کرنے کی تاکید کی ہے ۔ اس کا فرمان ہے: یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین(توبہ/119) یعنی  اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچ بولنے والوں  کے ساتھ رہو ۔(موقع الدرر السنیہ)

صدق کی تعریف:

صدق  کا مطلب ہے انسان کا  حقیقت و واقعہ  کے مطابق خبر دینا , یہ کذب کا ضد ہے ۔مثال کے طور پر اگر کوئی سوال کرتا ہے کہ آج کون دن ہے ؟  اور آپ کا جواب ہوتا ہے کہ آج جمعرات ہے, اور وہ دن حقیقت میں جمعرات کا دن ہے ,  تو یہ صدق ہے ۔ اور اگر آپ کا جواب ہوتا ہے کہ آج سوموار ہے تو یہ جھوٹ ہے ۔  تو معلوم ہوا کہ صدق کسی خبر کا واقعہ   و حقیقت کے مطابق ہونا ہے ۔(الوکہ: شرح حدیث ابن مسعود) 

 اور اس کی کئی قسمیں ہیں جن میں زبان سے سچ بولنا شامل ہے, جب بھی بولے ہمیشہ سچ بولے  ,  اور نیت و ارادہ میں صدق یہ ہے کہ اس کے عمل میں اخلاص ہو, ہر کام کو وہ صرف اللہ کی رضامندی کے لیے انجام دے, ریا و نمود سے دور رہے ,  اور کسی نیکی کو انجام دینے کی نیت میں عزیمت صدق ہے یعنی جب نیک کام کرنے کا ارادہ کرے تو پختہ ارادہ کرے , عزم مصمم کرے نہ کہ اس میں مضطرب و متردد ہو  ,  اور اعمال میں صدق یہ ہے کہ اس کا ظاہر و باطن ایک ہو, دونوں میں مطابقت و موافقت ہو,  جو دل میں  ہو اسی کے مطابق عمل ہو ورنہ یہ عملی جھوٹ ہوگا اور ایسا کرنے والا منافق ہوگا۔اور منافق وہی ہوتا ہے جس کا ظاہر و باطن ایک جیسا نہ ہو۔  ( موقع الدرر السنیہ)

صدق کے فوائد و نتائج:

پھر آپ نے صدق کے فوائد بتاتے ہوئے فرمایا  کہ وہ  ہر قسم کی نیکی کا راستہ ہے , بلا شبہ  جب کوئی  انسان  اپنی نیت میں , اپنے قصد و ارادہ میں , اپنے ایمان میں اور لوگوں کے ساتھ اپنی گفتگو میں , اپنے وعدوں  اور تمام حالات میں صادق ہوتا ہے تو یقینا ایسا انسان اللہ کی اطاعت کا پابند ہوگا , امانت کو ادا کرے گا , اس کے فرائض کو انجام دے گا اور اپنے نفس کا احتساب کرے گا , لہذا وہ کوئی ایسا کام نہیں کرے گا جس سے اسے جھوٹ بولنا پڑے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری سے بچ سکے اور کسی قسم کے حرج  میں واقع نہ ہولیکن وہ برابر سچ بولتا ہے۔

اور جب کوئی انسا ن سچ بولتا ہے, اس کی پابندی کرتا ہے تو وہ  اس کو اس کے تمام امور میں  حق میں ثابت قدمی کی طرف لے جاتا ہے(موقع الشیخ خالد السبت), وہ کثرت سے نیکی کرتا ہے اور ہر قسم کے خیر کو انجام دیتا ہے ,  تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جنت کا حقدار ہو جاتا ہے کیونکہ نیک اعمال ہی جنت کا راستہ ہے ۔اور دنیا کا ہر مسلمان چاہتا ہے کہ اس کو آخرت میں جنت ملے , اور یہ بلا شبہ سب سے بڑی کامیابی ہے ۔جس کا راستہ نیک اعمال ہیں ۔

اسی لیے نیک اعمال یا صالح اعمال کی دین اسلام میں بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے, اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اسی سے ہوتا ہے کہ اللہ تعالى نے قرآن مجید کی 41/سورتوں کی 71/آیتوں میں ایمان و عمل صالح کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے , اسی سے علماء نے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح ایمان کے بغیر کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے اسی طرح ایک مسلمان کا ایمان عمل کے بغیر خصوصا اس دنیا میں کارآمد و فائدہ مند نہیں ہے ۔ اور خود ہمارے پیارے نبی عمل کرتے تھے , صحابہ کرام اور ہمارے اسلاف سب باعمل تھے ۔ لیکن دور حاضر کے مسلمانوں کی سب سے بڑی بیماری ان کی بے عملی و بد عملی ہے اسی لیے وہ اس دنیا میں ذلیل و خوار ہیں ۔(راقم)

اسلام میں صالح عمل کی اہمیت و فضیلت کو  تفصیل سے جاننے کے لیے ہمارے ویب سائٹwww.drmannan.com  پر جائیے یا گوگل میں سرچ کیجیے: اسلام میں عمل صالح  کی از حد اہمیت و فضیلت ۔

اس کے علاوہ صدق کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ صدق ایک اچھی و قابل ستائش عادت ہے جو  جد و جہد اور محنت سے ملتا ہے, اور جب کوئی شخص تنہائی میں اور  لوگوں کے درمیان برابر سچ  بولتا ہے,  اس کی ہمیشہ سچ  بولنے کی عادت ہوتی ہے, اس کی تلاش میں رہتا ہے , اس کو چاہتا اور طلب کرتا ہے, اس کا قصد و ارادہ کرتا ہے اور اس کا اہتمام کرتا ہے اور اس کے ضد یعنی  جھوٹ کے قریب نہیں جاتا ہے  , پس صدق کا اس کے اکثر حالت پر غلبہ ہوتا ہےیہاں تک کہ وہ صدق میں اس کی انتہا اور نہایہ کو پہنچ جاتا ہے اور صدق اس کی طبیعت و فطرت بن جاتی ہے تو وہ صادقین و ابرار  کی جماعت میں شامل ہوجاتا ہے اور ان کے ثواب کا حقدار ہوجاتا ہے۔( موقع الدرر السنیہ و موقع موسوعۃ الاحادیث النبویہ) اور  اس کے بدلے میں اللہ تعالى اس کو صدیق کا اعلى مرتبہ عنایت فرماتا ہے  جو انعام یافتہ لوگوں میں دوسرا بڑا مرتبہ ہے ۔ فرمان الہی ہے:  و من یطع اللہ و الرسول فاولئک مع الذین أنعم اللہ علیہم من النبیین و الصدیقین و الشہداء و الصالحین(نساء/69) معلوم ہوا کہ صدیقیت ایک بہت بڑا و اعلى مقام و مرتبہ ہے جو منفرد و بے مثال لوگوں کو ہی ملتا ہے,  اور یہ  صرف مردوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ عورتوں کو بھی یہ مقام حاصل ہوتا ہے۔ ارشاد الہی ہے: ما المسیح ابن مریم الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل و أمہ صدیقۃ(مائدہ/75)

 اور صدیقیین میں سب سے افضل  مطلق طور پر وہ ہے جو ان میں سب زیادہ سچا ہے  اور وہ حضرت ابو بکر صدیق ہیں جو بنا کسی تردد و شک کے فورا ایمان لے آئے اور رسول اللہ کی اسرا و معراج میں تصدیق کی ۔ اس لیے آپ کا لقب صدیق ہوا۔(الوکہ)

سچ کا  بہتر انجام:

سچائی کا انجام ہمیشہ اچھا ہوتا ہے اور سچائی ہی میں نجات ہے اگرچہ بسا اوقات سچ بولنے کی وجہ سے انسان کو مشقت و تکلیف اٹھانی پڑتی ہے , دنیا اس کے اوپر تنگ ہوجاتی ہے لیکن آخر کار وہ کامیاب و کامران ہوتا ہے ۔ اور اس کی سب سے زیادہ واضح مثال حضرت کعب بن مالک , مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ کا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ بہت طویل ہے , قرآن و احادیث میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔ اس کا خلاصہ ہے کہ  یہ حضرات  ٹال مٹول و سستی و کاہلی کی وجہ سے سن 9/ ہجری میں واقع ہونے والے  غزوہ تبوک میں شریک نہ ہو سکے اور جب نبی کریم واپس مدینہ تشریف لائے تو ان سے حقیقت بتادی, توآپ نے فرمایا:اچھا اب جاؤ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں خود کوئی فیصلہ کر دے, اس کے بعد  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی، بہت سے لوگ جو غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے، ان میں سے صرف ہم تین تھے! لوگ ہم سے الگ رہنے لگے اور سب لوگ بدل گئے۔ ایسا نظر آتا تھا کہ ہم سے ساری دنیا بدل گئی ہے۔ ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ پچاس دن تک ہم اسی طرح رہے، میرے دو ساتھیوں نے تو اپنے گھروں سے نکلنا ہی چھوڑ دیا، بس روتے رہتے تھے لیکن میرے اندر ہمت تھی کہ میں باہر نکلتا تھا، مسلمانوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا تھا اور بازاروں میں گھوما کرتا تھا لیکن مجھ سے بولتا کوئی نہ تھا۔ اسی دوران غسان کے بادشاہ نے آپ کو خط لکھا اور اپنے یہاں آنے کی دعوت دی لیکن آپ نے اس کو آزمائش جان کر ٹھکرادیا ۔چالیس دن کے بعد تینوں صحابیوں کو  بیوییوں سے الگ رہنے کا حکم دیا  گیا ۔آخر کارپچاس  دنوں کے بعد اللہ تعالى نے ان  تینوں کی توبہ کو قبول کیا اور سورہ توبہ میں دوآیتیں  وعلى الثلاثۃ الذین خلفوا....... 118و 119 نازل فرمائی۔اس طرح آپ تینوں  کی توبہ قبول ہوئی اور مدینہ میں صحابہ کرام کے درمیان خوشی کی لہر دوڑ گئی اور  اور جوق در حوق بہت سارے صحابہ کرام حضرت کعب بن مالک سے ملاقات کرتے, توبہ کی قبولیت کی بشارت دیتے اور مبارکباد بھی۔

پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے مجھے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی۔ اب میں اپنی توبہ کی قبولیت کی خوشی میں یہ عہد کرتا ہوں کہ جب تک زندہ رہوں گا سچ کے سوا اور کوئی بات زبان پر نہ لاؤں گا۔ پس اللہ کی قسم! جب سے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ عہد کیا، میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جسے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے اتنا نوازا ہو، جتنی نوازشات اس کی مجھ پر سچ بولنے کی وجہ سے ہیں۔(بخاری /4418, کتاب المغازی, باب حدیث کعب بن مالک)

یہ ہے سچ کا انجام اور اس کا  بہترین بدلہ , بلا شبہ بسااوقات انسان کو سچ کی وجہ سےشروع میں  پریشان ہونا پڑتا ہے , تکلیف و مشقت جھیلنی پڑتی ہے لیکن بعد میں اس کا نتیجہ انتہائی مسرت آمیز و خوش کن ہوتا ہے ۔ اس سے سچ کی فضیلت , اہمیت و افادیت اور حسن انجام کا پتہ چلتا ہے ۔

جھوٹ کی تعریف:

اس کے بعد نبی کریم نے جھوٹ سے بچنے کی تاکید کی ہے, اور جھوٹ باطل قول ہے اور واقعہ و حقیقت کے خلاف  خبر دینا ہے, اور سب سے بڑا جھوٹ وہ ہے جو اللہ و اس کے رسول کے حق میں بولا جائے ۔ اور آج کے زمانہ کا ایک بڑا جھوٹ  وہ بھی ہے جو دانستہ و بطور قصد مسخرے لوگوں کو ہنسانے کے لیے  بولتے ہیں, اس کی بہت زیادہ وعید حدیث میں آئی ہے , آپ نے فرمایا: ویل للذی یحدث فیکذب لیضحک القوم, ویل لہ , ویل لہ (ابو داؤد/4990) یعنی ہلاکت و بربادی ہے اس کے لیے جو قوم کو ہنسانے کے لیے   أپنی بات میں جھوٹ بولتا ہے, اس کے لیے ہلاکت و بربادی ہے, اس کے لیے تباہی و بربادی ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ بہت بڑا جرم ہے لیکن بہت سارے لوگ اس کو بہت معمولی سمجھتے ہیں ۔(الوکہ)

 اور ایک  بہت ہی سخت قسم کا  انتہائی جھوٹ  یہ ہے کہ آدمی دوسروں کا مال ناحق کھانے کے لیے یا اس پر  قبضہ کرنے کے لیے جھوٹ بولے اور پھر قسم بھی کھائے ۔جیسے  زید بکر سے کہتا ہے کہ میرا تمہارے اوپر اتنا قرض  ثابت ہے لیکن بکر اس کا انکار کردیتا ہے اور اوپر سے قسم بھی کھا لیتا ہے , یا جھوٹ میں  دعوى کرتا  ہے کہ یہ پراپرٹی میری ہے اور اس پر قسم بھی کھا لیتا ہے ۔(الوکہ)    

جھوٹ کے نقصانات:

جھوٹ حرام ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے ,  اس کے نقصانات و خسارے بہت زیادہ ہیں  جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :---

جھوٹ بولنے والا لوگوں کی نظروں میں گرجاتا ہے, اس کی کوئی عزت و وقعت سماج میں نہیں رہ جاتی ہے, دنیا و آخرت دونوں میں ہلاکت و بربادی اس کا مقدر ہے ۔

 جھوٹ  فجور یعنی ہر نوع کی   برائی کے راستہ پر لے جاتا ہے۔ اور فجور یہ بر کا ضد ہے اور وہ سیدھی راہ سے مائل ہوجانا ہےاور اللہ کی اطاعت کو چھوڑ دینا ہے ۔ بلا شبہ جھوٹ ہر قسم کی برائی کی راہ ہے ۔

جھوٹ کا ایک بہت بڑا نقصان یہ ہے کہ  ایک قابل مذمت و ملامت عادت ہے , طویل عرصہ تک جھوٹ بولنے اور اس کو بطور قول و فعل اپنانے سے آدمی کی جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جاتی ہے حتی کہ اس کی فطرت و طبیعت بن جاتی ہے پھر اس کو اللہ کے  یہاں  بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے(موسوعۃ الاحادیث النبویہ) اور اسی کا اس کے حق میں فیصلہ کردیا جاتا ہے  اور یہی اس کی صفت بن جاتی ہے, اور بسااوقات مخلق کے دلوں میں اس کو ڈال دیا جاتا ہے, کیونکہ اللہ تعالى جب اپنے کسی بندے کو ناپسند کرتا ہے تو جبرئیل کو بلا کے کہتا ہے کہ وہ اس سے نفرت کرتا ہے لہذا آسمان والے اس سے نفرت کرتے ہیں  اور زمین میں بھی اس کے لیے  کراہیت و نفرت پیدا کر دیتا ہے ۔ اسی طرح جب اللہ تعالى اپنے کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو وہ جبرئیل کو بلا کے کہتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہو تو وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں اور زمیں میں  وہ مقبول ہوجاتا ہے ۔(موقع الشیخ خالد السبت)  

 جھوٹ کا سب سے بڑا خسارہ یہ ہے کہ وہ  ہر قسم کی بے حیائی اور برائی کی طرف لے جاتا ہے, انسان ہر قسم کے گناہ کا اسیر ہوجاتا ہے لہذا اس کے تمام اقوال و افعال حقیقت کے خلاف ہوجاتے ہیں اور اللہ کی اطاعت سے باہر ہوجاتے ہیں اور اللہ کی اطاعت کو چھوڑدینا ہی وہ  گڑھا ہے جو اس کو جہنم تک پہنچا دیتا ہے ۔ معاذ اللہ (موسوعۃ الاحادیث النبویہ)

جھوٹ کا برا انجام:

جھوٹ میں نجات بالکل نہیں ہے بلکہ ہلاکت اور بربادی ہے اور ایک جھوٹ کے لیے ستر جھوٹ بولنا پڑتا ہے اور اس کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں جھوٹا چرواہا اور بھیڑیا کا قصہ بہت مشہور ہے ۔ 

بتاتے ہیں کہ پرانے زمانے میں ایک چرواہا گاؤن والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ ایک روز چرواہے کو شرارت سوجھی اور وہ ایک ٹیلے پر چڑھ کر چیخنے لگا:
’’لوگوں دوڑو دوڑو بھیڑیا آگیا‘‘۔
بستی سے تمام لوگ دوڑ پڑے؛ مگر وہاں جا کر دیکھا کہ چرواہا مزے میں ہنس رہا ہے اور بکریاں صحیح وسالم چر رہی ہیں۔ وہ لوگ بہت غصہ  ہوئے اور واپس چلے گئے۔
اسی طرح ایک دن چرواہے کو پھر شرارت سوجھی اور بھیڑیا بھیڑیا کہتے ہوئے مدد کے لیے لوگوں کو پکارنے لگا۔ لوگ اس کی مدد کو دوڑے؛ لیکن چرواہے کوٹیلے پر کھڑا ہنستے دیکھ کر غصے کے عالم میں واپس چلے گئے۔ ۔
ایک دن ایسا ہوا کہ سچ مچ بھیڑیا آگیا، اب وہ لاکھ شور مچاتا ہے اور آواز پر آواز دے رہا ہے مگر کوئی مدد کو نہیں آیا کیوں اب اس کا اعتبار اُٹھ چکا تھا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ بھیڑیا اس کی کئی  بکریاں چٹ کر گیا۔

یہ ہے جھوٹ کا انجام جس کا سامنا بسا اوقات انسان کو اسی دنیا میں کرنا پڑتا ہے اور آخرت میں تو اس کا انجام بہت ہی بھیانک و خطرناک ہے ۔
   یہ ہے سچ و جھوٹ میں فرق, اس کے فوائد و نقصانات  اور ان کا انجام

دور حاضر کے مسلمانوں کی حالت: افسوس کی بات یہ ہے کہ دور حاضر کے مسلمانوں میں  سچائی کی بہت کمی ہے اور جھوٹ کی کثرت اور بہتات  ہے , گناہ کبیرہ اور حرام ہونے کے باوجود  مسلمان سماج اور معاشرہ میں  جھوٹ بولنا  ایک عام چیز ہے اور آج کا مسلمان بنا کسی خوف و ڈرکے  زندگی کے تمام شعبوں میں بہت زیادہ جھوٹ بولتا ہے,سیاست و وکالت,  معیشت و تجارت,  خرید و فروخت,زراعت  و  صنعت , خدمات و ملازمت , درس و تدریس, تعلیم و تعلم   غرضیکہ ہر جگہ جھوٹ کا بازار گرم ہے,  اور یہ جھوٹ صرف زبان سے جھوٹ بولنے پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے افعال و ارادوں میں بھی جھوٹ پایا جاتا ہے ۔ لوگ جھوٹ بولتے ہوئے بالکل نہیں شرماتے ہیں بلکہ مغرب کی تقلید میں ایک اپریل کو ہر سال بہت سارے مسلمان بھی اپریل فول مناتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔ یہ مسلمانوں کی اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے ۔

اب آخر میں اللہ عز وجل سے دعا ہے کہ وہ پوری دنیا کے  ہر مسلمان کو ہمیشہ سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

السابق
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: