لوک سبھا جنرل الیکشن 2024 ع کا تجزیہ

 

                لوک سبھا جنرل الیکشن 2024 ع کا  تجزیہ

              

آج کل  انڈیا میں ہر طرف پارلیمانی  انتخاب اور الیکشن   کا ماحول ہے, اس کی چرچا ہر جگہ و ہر مجلس میں ہے ,  ٹی وی , مجلات, اخبارات و سوشل میڈیا  میں اس پر خوب زور و شور سے  بحث ہو رہی ہے,  بین الاقوامی طور پر بھی یہ موضوع میڈیا میں چھایا ہوا ہے , سب کی  نگاہیں اس الیکشن  پرٹکی  ہوئی ہیں, لوگوں کے دل و دماغ پر یہ موضوع مسلط ہے , 19 و 26/ اپریل کو دو مرحلے کی ووٹنگ بھی  ہوچکی ہے , ابھی اس کے پانچ مراحل باقی ہیں , انڈیا  میں الیکشن  اور چناؤ  ہونا تو ایک عام بات ہے لیکن یہ پارلیمانی انتخاب  اپنے تمام سابقہ انتخابات سے الگ ہے کیونکہ یہ کوئی عام الیکشن نہیں ہے بلکہ یہ بھارتی  جمہوریت و آئین کو بچانے, انڈیا کو تاناشاہی کے خطرہ سے  محفوظ رکھنے, کراہیت و نفرت کو شکست دینے اور محبت کو عام کرنے و جتانے کا چناؤ ہے, یہ کرونی سرمایہ داری ( Crony Capitalism) کے خلاف الیکشن ہے , یہ غریبوں , مزدوروں, بے روز گاروں  اور کسانوں کا اپنے حقوق کو حاصل کرنے, سچ کا جھوٹ کو  اور  ایک نظریہ و افکار کا دوسرے نظریہ و افکار کو شکست دینے کا انتخاب ہے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ الیکشن و انتخاب ہر معنی میں اپنے تمام سابقہ انتخابات سے  بالکل الگ و جدا ہے  اور یہ انڈیا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والا ہے ۔

ایک طرف جہاں اس الیکشن میں منو وادی نظریہ کی حامل آرایس آرایس کی بر سر اقتدار سیاسی  شاخ  بی جی پی اس کو جیتنے کے لیے ہرقسم کے سرکاری و غیر سرکاری , جائز و ناجائز و سائل کا   بے دریغ استعمال کر رہی  ہے اور شب و روز  جان توڑ محنت کر رہی ہے  کیونکہ  بھاجپا  اور  خصوصا  اس کے وزیر اعظم کو بہت زیادہ  ڈر اور شدید  خوف ہے کہ الیکشن ہارنے کی صورت میں ان کی تمام بے ایمانیاں , فراڈ ز اور اسکیمس وغیرہ کا تحقیق و جانچ کے بعد پتہ چل جائے گا جس سے   ان کو جیل کے سلاخوں کے پیچھے جانا پڑ سکتا  ہےاور ان کی و ان کی پارٹی کی  بہت زیادہ رسوائی و بے عزتی ہوسکتی ہے اور مستقبل میں ان کے لیے اقتدار کا دروازہ  طویل عرصہ تک بند ہوسکتا ہے,  جیسا کہ کانگریس  کی طرف سے دوران الیکشن ہی موجودہ حکومت کے فراڈ کے جانچ و تحقیق  کا اعلان کردیا گیا  ہے ۔

اور اس امر  میں کوئی ذرہ برابر شک و  شبہ نہیں ہے کہ کہ بی جی پی انڈیا کی سب سے بڑی کرپٹ پارٹی ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس نے دیگر بہت ساری سیاسی پارٹیوں کے بہت سارے  کرپٹ سیاستدانوں کو اپنی پارٹی میں نہ صرف داخل کر لیا ہے بلکہ ان کو اعلى  عہدوں  و مناصب سے بھی نوازا ہے ,  یہ وہی سیاستداں ہیں  جن کے اوپر بھاجپا اور خود مودی جی فراڈ کا الزام لگاتے تھے اور ان کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیاں تفتیش کر رہی تھیں  اور ان پر کیس چل رہے تھے , لیکن بھاچپا جوائن کرنے کے بعد ان سب کے داغ دھل گئے اور  وہ سب بری ہوگئے ۔

اس کی  دوسری  بڑی و مضبوط دلیل مودی کے دور حکومت میں سرکاری سرپرستی و قانونی نگہبانی  میں انجام دیا  جانے والا دنیا کا سب سے بڑا  فراڈ و اسکیم  الیکٹورل بانڈ ہے۔یہ تو سپریم کورٹ کی مہربانی ہے جس سے عوام کو اس کی حقیقت کا پتہ چل  گیا ورنہ مودی نے فراڈ  کے سارے انتظامات خفیہ رکھے تھے۔ پی ایم کیئر فنڈ کا تو حکومت نے حساب دینے ہی سے منع کر دیا ہے ۔اس کے علاوہ بہت سارے فراڈ ہیں جن پر حکومت  نے پردہ ڈال رکھا ہے ۔

 اس لیے بی جی پی خصوصا مودی کی سانسیں اٹکی ہوئی ہیں اور اس کو اپنا مستقبل بہت ہی تاریک نظر آرہا ہے۔بنا بریں  اب خود اس کی اور اس کی پارٹی کی  طرف سے  اس الیکشن کو جیتنے کے لیے   ہندو مسلم  کارڈ  کھیلا جا رہا ہے , مذہب کا سہارا لیا جا رہا ہے , ہندؤوں کے جذبات کو بھڑکایا جا رہا ہے تاکہ پولرائزیشن ہوسکے , اور سب سے زیادہ حیرت و تعجب کی بات یہ ہے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی  دھجیاں اڑاتے ہوئے  گرو اور اس کے چیلےسب کے سب  برسر عام  انتخاب میں  کثرت سے جھوٹ بولنے پر اتر آئے ہیں  ۔ویسے یہ مذکورہ بالا تمام امور وہ اور اس کی پارٹی کے لیے نئے نہیں ہیں , یہ سب اس کے پرانے ہتھکنڈے  ہیں  نیز اس کی اور اس کی پارٹی کی  پرانی عادت رہی ہے, اور وہ ہمیشہ سے جھوٹ بولتے رہے ہیں  , لیکن اب تو اس نے  اور اس کی پارٹی نے جھوٹ بولنے کے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ خود ہی توڑ دئیے ہیں , روزآنہ ہر ریلی و جلوس میں بنا کسی حیا و شرم کے  جھوٹ  انڈیلاجاتا ہے , ہندؤوں  و مسلمانوں کے درمیان نفرت و کراہیت کے بیج بوئے جاتے ہیں , ہندؤوں کی بھاری اکثریت کے باوجود ان میں مسلمانوں کا ڈر و خوف پیدا کیا جاتا ہے اور پھر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ صرف بھاجپا اور خصوصا مودی  ہی ان کو مسلمانوں   کے خطرہ سے نجات دلا سکتا ہے,  اس لیے صرف اسی کو ووٹ دیں اور اپنے نفس, دھرم  و دولت کی حفاظت کریں  ۔

اور اس سے زیادہ تعجب و حیرت اس پر ہے کہ ایک وزیر اعظم کو  بر سرعام پوری دنیا کے سامنے جھوٹ بولتے ہوئے بالکل  حیا و شرم نہیں ہے اور نہ ہی اپنے منصب کا پاس و  لحاظ ہے اور نہ ہی اپنی عمر و دین کا  کچھ خیال ورعایت ہے کیونکہ دنیا  کا کوئی بھی مذہب کسی بھی حالت میں  جھوٹ بولنے کی اجازت قطعا نہیں دیتا ہے اور ہر انسان خصوصا بڑھاپے میں جھوٹ بولنے سے پرہیز کرتا ہے لیکن یہ شخص ہر حد کو پار کر چکا ہے ۔ اس کو بس ایک ہی چیز کی فکر ہے اور وہ الیکشن جیتنا ہے خواہ وہ کسی بھی طریقہ سے ہو ۔ اس کا نعرہ  یہودیوں کا ہے کہ "الغایۃ تبرر الوسیلۃ" یعنی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کوئی وسیلہ اختیار کیا جاسکتا ہے خواہ وہ جائز ہو یا ناجائز, اور اس کے لیے بہنوں و ماؤں کی عزت کو نیلام کیا جا سکتا ہے ۔ اور بلا شبہ وہ یہودیوں کا جگری دوست ہے لہذا وہ بھی انہیں کے طریقہ پر عمل پیرا ہے ۔

اور میری نظر میں یہ انڈیا کا اب تک کا سب سے ناکام , سب سے زیادہ پرچار کرنے والا اور سب سے زیادہ جھوٹ بولنے  وزیر اعظم ہے, اور جتنا  ہنسی مذاق اس کا اڑایا گیا ہے اتنا کسی اور کا نہیں اڑایا گیا ہے ۔اور اس کے اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے جتنی توہین اس کی ہوئی ہے کسی اور کی نہیں ہوئی ہے ۔

یہ اس ملک کی بہت بڑی  بد قسمتی ہے کہ اس کے دوسرے  اعلى  آئینی  منصب پر  فائز شخص اتنا زیادہ سفید جھوٹ بولتا ہے کہ وہ جھوٹوں کا " وشو گرو"  یعنی  عالمی معلم بن گیا  ہے خواہ انڈیا اور کسی میدان میں وشو گرو بنا ہو یا نہ بنا ہو لیکن اس کا وزیر اعظم  جھوٹ میں وشو گرو ضرور بن گیا ہے ۔

اس کے جھوٹ بہت ہی مشہور ہیں , اخبار و سوشل میڈیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور موضوع بحث ہیں ,  مثلا اس کا کہنا ہے کہ  اگر کانگریس  اقتدار میں آتی ہے تو لوگوں کے مال و دولت کا اکسرے ہوگا اور اگر کسی کے پاس دو گھر ہے تو ایک گورنمنٹ لے لے گی, دو گاڑی ہے تو ایک پر  حکومت قبضہ کرلے گی  یہاں تک کہ ماؤں, بہنوں کے منگل سوتر تک کو نہیں چھوڑاجائے گا, یہی نہیں بلکہ  ہندؤوں سے چھین   کر ان لوگوں  میں تقسیم کر دیا جائے گا جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں اور جو در انداز ہیں ۔اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈیا میں امریکہ کی طرح وراثت ٹیکس لا گو کیا جائے گا اور 55% مال دولت پر حکومت قبضہ کر لے گی ۔ وغیرہ  اور یہ سب کا نگریس کے انتخابی منشور میں لکھا ہوا ہے ۔ جب کہ یہ سب سراسر جھوٹ ہے اور کانگریس کے اتخابی منشور میں اس کا کہیں تذکرہ نہیں ہے ۔

اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس کے تابع تمام وزراء و نیتا اپنے گروجی کی ہی باتوں کو دہراتے ہیں اور وہ بھی ہر جگہ جھوٹ بولتے ہیں بلکہ اس سے  بھی دو قدم آگے ہی رہتے ہیں ۔  ان کے ایک چیلے کا کہنا ہے کہ اگر کانگریس حکومت بنائے گی  تو شریعت قانون نافذ کرےگی  اور گایوں کو زیادہ سے زیادہ ذبح کرنے کی اجازت دے گی۔ وغیرہ  ظاہر ہے  کہ جب گرو ہی ایسا ہے تو اس کے چیلے کیسے ہوں گے۔

ایک طرف تو مودی و اس کے چیلوں  کی یہ حالت ہے دوسری طرف انڈیا کا الیکشن کمیشن ہے جو خواب خرگوش میں مست ہے اور مودی کے خلاف کانگریس و مخالف جماعتوں کی  شکایت در شکایت کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لے رہا ہے اوراگر شکایتوں کے بعد کوئی قدم اٹھایا ہے تو  اس کی اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ مودی کو ڈارکٹ نوٹس دے , اسی لیے اس نے اگر نوٹس بھیجی ہے تو وہ بھاجپا کے صدرنڈا  کو بھیجی ہے اور ان سے وضاحت طلب کی ہے  کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ  تمام بڑے خود مختار  آئینی ادارے حکومت کے قبضہ میں ہیں اور اس کے  غلام بن چکے ہیں ۔یہ ایک  تلخ حقیت ہے کوئی  مانے یا نہ مانے کہ آر یس ایس نے ایک منظم و مرتب پلاننگ و منصوبہ بندی کے تحت اپنے تیار کردہ  اشخاص کو ہر شعبہ کے اندر داخل کردیا ہے جو اس کے مشن کو بہت ہی خاموشی کے ساتھ نافذ کرتے ہیں ۔ یہ آر ایس ایس کی سب بے بڑی کا میابی ہے , لہذا اس کے افراد کسان, مزدور, طلبا تنظیموں ,  پولس, فوج , میڈیا,  وکلاء سے لے کر آئی اے ایس, آئی پی ایس , ضلعی کورٹس و سپریم کورٹس  تک میں موجود ہیں جو حکومت پر کوئی کاروائی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں اور اس کے ایجنڈا کو آگے بڑھاتے ہیں ورنہ اگر الیکشن کمیشن و دوسرے بڑے آئینی ادارے غیر جانبدار ہوتے تو آج مودی و اس کے چیلوں کے خلاف  فوری کاروائی کرتے ہوئے سخت  ایکشن لیتے جس سے  ان کو دوبارہ سفید جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں ہوتی لیکن سب پر حکومت کا سخت  دباؤ ہے اور سب کچھ ختم چکا ہے ۔ 

خیر دو مرحلوں کی ووٹنگ کے بعد زیادہ تر سیاسی مبصرین اور راجنیتک  پنڈتوں کا کہنا ہے کہ بھاجپا اس بار الیکشن ہار رہی ہے اور انڈیااتحاد اس کو زبردست ٹکر دے رہا ہے , اور اس کے بعض نیتاؤں جیسے سنجے راوت   نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے  کہ انڈیا الائنس کو تین سو سے زیادہ سیٹیں مل رہی ہیں , راہل گاندھی نے بھی پیشین گوئی کی ہے کہ  این ڈی اے اتحاد کو 200/سے کم سیٹیں مل رہی ہے۔اب یہ تو چار جون ہی کو یقینی طور پر معلوم ہوگا کہ اس انتخاب میں کس نے بازی ماری ہے اور کون سکندر ہے, لیکن جہاں تک مجھ خاکسار کی رائے ہے تو میرا ماننا ہے کہ بھاجپا کو شکست دینا بہت مشکل ہے, اس کی حکومت تیسری بار لگاتار بن سکتی ہے ہاں اس کی سیٹیں یقینی طور پر کم ہوں گی لیکن حکومت اسی کی بنے گی ۔ زیادہ امید اسی کی ہےحالانکہ مسلمانوں کے بارے میں اس کے رویہ کو دیکھتے ہوئے  میری شدید خواہش ہے کہ بھاجپا کو بری طرح شکست ہو اور میں دعا بھی کرتا ہوں اور ساتھ ہی کوشش بھی کرتا ہوں ۔ اور میں ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ بنا کسی ادنى شک کے  بھاجپا الیکشن میں بے ایمانی کرتی ہے, اس کی سب سے زیادہ واضح مثال جنوری 2024 ع میں واقع ہوا چندی گڑھ کا  میئر الیکشن ہے اور فی الحال أپریل 2024 ع میں  سورت سے امیدواروں پر نام واپس لینے کا دباؤ ڈال کے  بھاجپا امیدوار کی بنا ووٹنگ کے جیت و کامیابی کا اعلان کردینا  ہے, اس کے علاوہ فراڈ ووٹ اس کے حق میں ڈالے جاتے ہیں کیونکہ  بہت سارے بوتھوں پر کام کرنے والے افسران بے ایمان ہوتے ہیں اور بھاجپا کے کارندوں سے ملے ہوتے ہیں , ووٹوں کی گنتی میں بھی بے ایمانی ہوتی ہے ۔ابھی منی پور میں  ای وی ایم کا جوواقعہ  ہوا ہے کہ کوئی بھی بٹن دباؤ لیکن ووٹ کمل ہی کو جاتا ہے, اور اس قسم کے بہت ساے ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں ۔ اس وجہ سے میرا ماننا ہے کہ بھاجپا کو شکست دینا بہت مشکل ہے , اور بے ایمانی بھی وہ بہت ہی حکمت و دانائی کے ساتھ مناسب انداز میں کرتی ہے تاکہ عوام کو زیادہ شک نہ ہو ورنہ  زبردست عوامی  غصہ و تحریک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔

اس الیکشن کی ایک نہایت خاص بات کانگریس کا 48/ صفحات کا   انتخابی منشور ہے جو بہت ہی شاندار اور زبردست ہے اور جس میں تمام طبقات کے لوگوں کے لیے 5 (جوان, کسان, خاتون, مزدور اور حصے داری) انصاف اسکیم کے تحت 25 گارنٹیاں دی گئی ہیں ۔ اس منشور کی کچھ خاص باتیں ہیں :---

     ملک گیر معاشی و سماجی صورت حال کی بنیاد پر ذات پر مبنی مردم شماری, سرکاری اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں کنٹریکٹ بھرتی کو ریگولر بھرتی سے بدلنا  اور موجودہ کنٹریکٹ ورکرز کو ریگولر کیا جانا, اپرینٹس شپ رائٹس ایکٹ  کے ذریعہ نوجوانوں کی پہلی نوکری پکی جس کے تحت ہر ٹرینی کو ایک لاکھ روپے سالانہ اعزازیہ دیا جائے گا, مرکزی حکومت میں مختلف سطحوں پر منظور شدہ تقریباً 30 لاکھ خالی آسامیوں کو پُر کیا جائے گا,   سرکاری امتحانات اور سرکاری آسامیوں کے لیے درخواست کی فیس ختم کر دی جائے گی۔ مہا لکشمی اسکیم کے تحت غریب خاندان کو ایک لاکھ روپیہ سالانہ دیا جائے گا , کسانوں کے لیے ایم ایس پی لاگو کیا جائے گا,سرکاری اسکولوں میں اوّل سے 12ویں درجہ تک تعلیم کو مفت اور لازمی بنانے کے لیے حق تعلیم (آر ٹی ای) ایکٹ میں ترمیم کیا جائے گا,کانگریس نے کہا ہے کہ وہ ’ون نیشن، ون الیکشن‘ کے تصور کو مسترد کرتی ہے, ای وی ایم کے ذریعہ ووٹنگ کو اور شفاف بنایا جائے گا, آئین کے دسویں شیڈول میں ترمیم کیا جائے گا اور پارٹی بدلنے والے ممبران اسمبلی و ممبران پارلیمنٹ کو اسمبلی یا پارلیمنٹ کی رکنیت سے خود بخود نااہل قرار دیا جائے گا۔وغیرہ

منشورکے کچھ اہم نقاط قدرے تفصیل سے  اس مجلہ میں شامل اشاعت ہیں  آپ وہاں پر دیکھ سکتے ہیں ۔

    اگر دیکھا جائے تو مجموعی طور پر یہ  منشور بہت ہی اچھا, شاندار,  لائق تحسین و زبردست ہے جس سے انڈیا میں ایک قابل قدرو  مستحسن  انقلاب آسکتا ہے, بے روزگاری اور مہنگائی کا خاتمہ ہوسکتا ہے, غریبوں کی زندگی میں  خوشحالی آسکتی ہے, ملک کا اقتصاد تیز رفتاری سے ترقی کرسکتا ہے, مختلف مذاہب و فرقوں کے مابین امن و امان اور شانتی کا قیام ہوسکتا ہے  ۔کل ملا کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ انڈیا اور اس کی عوام  کی قسمت کو بدلنے والا منشور ہے ۔  واضح رہے کہ یہ بھی مودی کے بوکھلاہٹ کی ایک وجہ ہے, اور اسی لیے کانگریس کے منشور پر وہ زبردست طریقہ سے حملہ آور ہے اور اسے مسلم لیگ کا منشور بتا تا ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھاجپا کے دس سالہ  دور حکومت میں ملک کا ہر ناحیہ سے بہت زیادہ نقصان ہوا ہے,  بے روزگاری و مہنگائی بے تحاشہ بڑھی  ہے, سرکاری ملازمت سے لوگوں کو کافی حد تک محروم کردیا گیا ہے,   لوگوں کی غربت میں اضافہ ہوا ہے, نوٹ بندی سے اقتصاد کو زبردست نقصان پہنچا ہے, کالا دھن و دھشت گردی  میں کمی کے بجائے زبردست اچھال آیا ہے,نفرت و تشدد کو بڑھاوا ملاہے,  خود مختار آئینی اداروں کو کمزور کیا گیا ہے, ان کا غلط استعمال ہواہے, عوام کی فلاح و بہبود کی بہت ساری اسکیموں کو بند کردیاگیا  ہے, اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کو بہت زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے ,  سیاست اور اکثر سیاستدانوں  کا معیار بہت زیادہ گرا ہے, اکثریت  میں ذرہ برابر  نہ اخلاق ہے نہ کسی  اصول و ضابطہ کی پاسداری , نہ کوئی حیا و شرم , نہ جرات و ہمت ,  وہ ہمیشہ بکنے اور فروخت ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں ,  ان کا ضمیر مر چکا ہے, ان کی غیرت ختم ہوچکی ہے, سیاست ایک رنڈی  کی طرح ہے ,  ملک  تانا شاہی کی طرف بڑھ رہا ہے, بی جی پی نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں  کچھ نہیں کیا ہے عوام کو صرف دھوکا دیا ہے اور جملوں سے بہلایا  و بیوقوف بنایا ہے  وغیرہ۔

 ان سب کے باوجود اگر عوام بیدار نہیں ہوتی ہے , اور  این ڈی اے خصوصا بی جی پی  کو ووٹ کرتی ہے تو پھر اس کی عقلوں پر ماتم کے علاوہ اور کیا کیا جا سکتا ہے ,  اور اگر اس الیکشن میں وہ کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ انڈیا کا بہت ہی تاریک و منحوس  دن ہوگا  اور پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ اب بھی پانچ مرحلے باقی ہیں , حکومت کو بدلنے کا  یہ ایک زریں موقع ہے, اس لیے   ہر محب وطن فرد   کی دینی,  اخلاقی و ملکی ذمہ داری ہے کہ وہ بھاجپا کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے ورنہ مستقبل میں کف افسوس ملنے , پچھتانے اور خراب  نتائج کوبھگتنے  کے لیے تیار رہیں  لیکن جب چڑیاں چگ گئیں کھیت تو پھر پچھتانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے   ۔  و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

تحریرا فی  الاثنین 29/اپریل 2024 ع 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: