اصلاح کا طریقہ کار

 

بسم الله الرحمن الرحيم

مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

              بتاریخ: 15- 8- 1435ھ / 13-6-2014ع

 


خطبہ وتحریر:عالی جناب ڈاکٹر صالح بن عبداللہ بن حمید

امام وخطیب مسجد حرام وسابق صدر مجلس شوری،سعودی عرب

 

ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

مدرس ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ

 


اصلاح کا طریقہ کار

          پہلا خطبہ

          ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے تقدیر بنائی اور جس کا اسے مکمل علم ہے،جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا تو ان کو اچھی طرح سے بنایا۔ارشاد ہے:”وہی وہ ذات ہے جو تمھیں اپنی نشانیاں دکھلاتا ہے اور تمھارے لیے آسمان سے روزی نازل کرتا ہے۔“(غافر: ۱۳)۔اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں،وہی مارتا اور جلاتا ہے،وہی ہنساتا اور رلاتا ہے اور وہی خوش بخت اور بدبخت بناتا ہے۔ہم اس کی بے شمار نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں پھر بھی اس تعریف سے اس کا حق ادا نہیں کرسکتے۔بندہ اور غلام ہونے کی حیثیت سے ہم سچی اور ٹھوس گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے،وہ تنہا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو اپنے رب سے سب سے زیادہ ڈرنے والے اور خوف کھانے والے تھے۔اللہ تعالیٰ کی آپ پر رحمت ہواور آپ کی نیک اور پاک آل واولاد پر اور آپ کے روشن،چمک دار،بابرکت اور اچھے صحابیوں پر جو ہر طرح کی بھلائی میں سبقت لے گئے اور آپ کی اتباع کرنے والوں پر اور احسان واخلاص کے ساتھ آپ کی پیروی کرنے والے ہر شخص پر،اس قدر جس قدر یہ دین دن ورات کی حد تک پھیلا ہے اور جس قدر اس کے جھنڈے پورب وپچھم میں لہرا رہے ہیں۔

       امابعد:اے لوگو!میں تم سب کو اور اپنی ذات کو اللہ سے تقوی کی وصیت کرتا ہوں،لہذا اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اللہ تم سب پر رحم فرمائے،کیوں کہ تقوی خواہشات نفس سے محفوظ رکھتا ہے۔اللہ سے توبہ کرو اور اسی سے بخشش طلب کروکیوں کہ زیادہ استغفار روزی کا سبب ہے۔انسان کی سلامتی اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان یعنی زبان میں ہے۔ جو لوگوں کے دلوں پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے تو اسے مسکراہٹ کے ساتھ نرم گفتگو کرنی چاہئے اور لغزشوں سے چشم پوشی کرنا چاہئے۔یاد رکھو!دنیا کے حالات اس رنج وغم کے حقدار نہیں ہیں کیوں کہ روزی تقسیم کردی گئی ہے،تقدیر حتمی اور لازمی ہے اور اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا اور تمام کائنات کا سنبھالنے والا ہے،اس کی رحمت پر امید رکھنی چاہئے۔جو اللہ سے عافیت چاہتا ہے،اللہ اسے معاف کردیتا ہے اور جو اس کی طرف پناہ لیتا ہے،اللہ اسے پناہ دیتا ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:”یہ دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بلاشبہ آخرت کی زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی ہے اگر وہ لوگ جانتے۔“(عنکبوت:۶۴)

       اے مسلمانو!اس دنیا میں انسان کا کام اللہ تعالیٰ کی وحدانیت،ذکر وشکر اور عبادت میں اس کی عبودیت اور بندگی ہے اور پھر اس دنیا کو اس عبودیت،غلبہ دین اور اقامت شریعت کے لحاظ سے آباد کرنا ہے۔اللہ تعالیٰ کی عبودیت ہی سب سے بڑا ٹارگٹ اور مقصد ہے۔البتہ بہت سارے علوم،نالج،کام،حکومت،پیشے اور کاریگری وغیرہ،یہ سب اس مقصد تک لے جانے والے وسائل وذرائع ہیں اور اس کے تابع ہیں۔حقیقی روشنی تو وحی اور قرآن وحدیث کے نور سے روشنی حاصل کرنا ہے۔اور تاریکی پن اور تاریکیاں وحی کی روشنی سے محرومی ہے۔تعمیر کا سب سے اشرف مرتبہ ایمانی تعمیرہے۔ خلافت کا جوہری وظیفہ اللہ کے دین کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی جامع عبارت میں کہتے ہیں کہ حکومتوں کا مقصد اور ان کی ذمہ داری لوگوں کے دین کی اصلاح ہے کیوں کہ اس کے فوت ہونے کی صورت میں ان کا زبردست نقصان ہے اور دنیا میں حاصل ہونے والی نعمتوں سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔اسی طرح دنیاوی امور میں سے ان چیزوں کی بھی اصلاح ضروری ہے جس کے بغیر دین قائم نہ ہو۔

       امام غزالی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ خلافت،قضاء اور سیاست بلکہ اکثر فقہی احکام کا مقصد دنیا کی مصلحتوں کی حفاظت ہے تاکہ اس کے ذریعے دين کی مصلحتیں پوری ہوں۔

       اے بھائیو!اسی وجہ سے ایمان کا سب سے اعلیٰ شعبہ لاالہ الااللہ کہنا ہے اور اس کا سب سے نیچا درجہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کردینا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔

       بہت سی چھوٹ بڑی باتیں اور کام ایسے ہیں جو فرض عین یا فرض کفایہ ہیں اور بہت سے واجبات اور مستحبات ایسے ہیں جن سے دین سنورتا ہے اور دنیا آباد ہوتی ہے۔

       اللہ کے بندو!دین داری اور اللہ کی عبادت وبندگی ہر انسان کی فطرت ہے اور انسانیت کی بہتری اور بھلائی کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ دین کا نیز مسلمانوں کی راہ کی اتباع کا راستہ ہے۔اللہ کا فرمان ہے:”جولوگ کتاب کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں تو یقیناً ہم ایسے نیک کردار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کریں گے۔(الأعراف:۷۰)۔ایک دوسری آیت میں ہے:”جس نے اپنے آپ کو اللہ کے تابع کردیا اور وہ نیکوکار بھی ہے تو یقیناً اس نے مضبوط کڑا تھام لیا اور تمام کاموں کا انجام اللہ کی طرف ہے۔“(لقمان:۲۲)

      دنیا کو آباد اور اس کی اصلاح کرنے والا مسلمان اپنے دین میں طاقت ور اور اپنے عقیدہ میں ثابت قدم ہوتا ہے،وہ دینی حقائق سے ذرائع ابلاغ کی مجاملت یا عوام کی خواہشات کی ہم نوائی میں کوئی تنگی محسوس نہیں کرتا ہے۔اس کا رب اس کی نگرانی کرنے والوں میں سب سے زیادہ گیا گزرا نہیں ہے،اس حال میں کہ وہ یہ آیت پڑھتا ہے:”تمھارے رب کی قسم!یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والانہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں۔“(النساء:۶۵)۔اور وہ یہ بھی پڑھتا ہے:”کسی مومن مرد اور عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملہ کا فیصلہ کردیں تو اس کے لیے اس کے اندر کوئی اختیار باقی ہو۔“(الأحزاب:۳۶)اور وہ یہ بھی پڑھتا ہے:”اور اس سے بہترکس کا قول ہوگا جو اللہ کی طرف دعوت دے اور نیک کام کرے اور کہے کہ میں بلاشبہ مسلمانوں میں سے ہوں۔(فصلت:۲۳)

       بعض کمزور ایمان والے درحقیقت ایسے لاچار و مجبور انسان ہیں جو غیرت کو شدت خیال کرتے ہیں یا جو حق کی و صیت کو لوگوں پر چوکیداری تصور کرتے ہیں اور بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کو مداخلت تصور کرتے ہیں جب کہ برائیوں کے ارتکاب کو شخصی آزادی مانتے ہیں۔

        ایک نیک کردار مسلمان باہر سے درآئے افکار اور غلط مفاہیم کو جواسلامی معاشرے میں مسلمانوں کی تعلیم، ثقافت اورذرائع ابلاغ میں داخل ہوگئے ہیں ان کو پہچان لیتا ہے۔یاد رہے کہ مختلف قسم کے علوم، نالج، حکومت، سیاست، عمل اور تجارت و غیرہ سب کے سب وسائل و ذرائع ہیں،ان کی ضرورت اسی قدر ہے جتنا یہ دین کو مضبوط بناتے ہیں، اقدار و روایات کو بلندی عطا کرتے ہیں اور نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں۔ ان فلسفوں یا نظریات سے خبردار رہنا ضروری ہے جو صحیح فکر کی پرورش نہیں کرتے اور نہ صحیح و درست چال چلن کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ اقدار و اخلاق سے خالی علوم اور تہذیب و تمدن کی بڑائی کرنے اور اس کی تعریف میں غلو کرنے سے بچو کیونکہ غلو انحراف کا سرچشمہ ہے۔

        نئی چیز سے فائدہ اٹھانے اور گمراہ کن مرعوبیت کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ نیک اور اصلاح پسند شخص شریعت کی طرف منسوب بعض لوگوں کی غلطیوں کے انتقام میں خودہی شریعت سے منحرف نہیں ہو تا،وہ نیکو کاراور تعمیری ذہن کا حامل ہوتا ہے،نصیحت قبول کرتا ہے ،غلطی کرنے والے کے لیے مغفرت طلب کرتا ہے اور اپنے رب سے اپنے تعلقات کااحتساب کرتارہتا ہے پس جوکام درست ہو تا ہے اسی کے لیے آگے بڑھتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اسی کو کرتا ہے،اس کے برعکس جو غلط ہوتا ہے اس سے توبہ کرتا ہے اور رجوع کرلیتا ہے۔

       اے درستگی اور اصلاح کے خواہش مند! خبردارتم شرعی نصوص اور فقہی دلیلوں کو نئی چیزوں اور مشکلات کے لیے وجہ جواز اور اس کی طرف سے مدافعت کرنے والا نہ بناؤ بلکہ ان کی روشنی میں اس کا حکم معلوم کرو۔ یہی نہیں بلکہ ان تمام چیزوں کو شرعی پیمانوں اور راسخ اہل شریعت اور ماہر زبان علماء کے نزدیک تسلیم شدہ امور کاپابند بنانا ضروری ہے۔

       جدیدیت کے بارے میں گفتگو کرنے والوں اور اصلاح پسندوں کے لیے یہ جاننا ازبس ضروری ہے کہ عقیدہ، دین کے ٹھوس و مضبوط قوانین اور اسلامی اصول و ثوابت میں تبدیلی و تغیر ناممکن ہے، اور ان کے لیے یہ جاننا بھی بہتر ہے کہ اسلام بذات خودا صلاح کا موضوع نہیں ہے بلکہ وہ اصلاح اور درستگی کا ذریعہ ہے، وہ اصلاح کرنے والا اور درستگی کا پیمانہ ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:”آج میں نے تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کر لیا“۔(المائدہ:۳) اور ایک دوسری آیت میں ہے:”اور ہم نے آپ ﷺ کے اوپر ایک ایسی کتاب اتاری ہے جو ہر چیز کے لیے بیان، ہدایت اور رحمت ہے نیز مسلمانوں کے لیے خوشخبری ہے۔

       اے بھائیو! تمھیں معلوم ہونا چاہئے کہ اصلاح کا سب سے بڑا اور اہم اور بہتر نقطہ آغاز مسلمان شخصیت کی تعمیر ہے۔ جس کو اپنی شخصیت کی مکمل واقفیت ہو اور جو اپنی نسبت دین، نبی اور قرآن کی طرف کرتا ہو اور اس شخصیت کے اجزاء ترکیبی پر اس کو پورا بھروسہ ہو۔یہ بھی یاد رہے کہ اصلاح کی ان کوششوں میں کوئی فائدہ نہیں ہے اگر ان کا آغاز اس طرح سے نہ ہو۔علوم،ٹکنالوجی اور لیبر مارکیٹ کبھی بھی عقیدہ،اخلاق اور اچھے کردار کا بدل نہیں ہوسکتے ہیں۔

صنعت وحرفت اور تجارت کا کیا فائدہ ہے اگر وہ ایسا درست اور سیدھا انسان تیار نہیں کرتی ہیں جو مسلمان،زندہ ضمیر،نیک شہری ہو اور جب لوگ ہی بگڑے ہوئے ہوں تو بایں صورت نظام،قانون،دستور اور تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔فرمان ربانی ہے:”یقیناً اللہ تعالیٰ کسی قوم کو نہیں بدلتا ہے جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل لے۔“(الرعد:۱۱)

       مسلمانو!اصلاح کا طریقہ کار یہی ہے۔البتہ مصلحین اور اصلاح کے بارے میں باتیں کرنے والے اس دور کے مصائب ومشکلات میں سے ہیں کیوں کہ موجودہ دور کے معاشرے اپنے وسائل اطلاعات،ذرائع ابلاغ اور مختلف قسم کے چینلوں کی وجہ سے کھلے ہوئے معاشرے ہیں جس میں اسی کھلے پن کے ساتھ ہی سب کے لیے شرکت ممکن ہے۔اصلاح کا سچا پکا طالب اور مخلص خیرخواہ وہ ہے جو چیزوں کو اس کی اہمیت وضرورت کے حساب سے اچھی ترتیب دیتا ہے،اسی وجہ سے وہ سب سے اہم چیز کو سب سے پہلے پیش کرتا ہے،پھر جو اس سے کم اہمیت والی ہو۔اپنی ذات کو بنانے اور اپنی امت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی ذات کو لایعنی باتوں اور ان میں شریک ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔خبردار!کہیں ایسا نہ ہو کہ گفتگو اور تکرار کی خواہش عمل اور عطا کی سنجیدگی پر غالب آجائے،یہ بھی یاد رہے کہ اچھی نیت اچھے کام سے بے نیاز نہیں کرے گی۔

       یہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ معاشرتی اطلاعات کے ذرائع اور اس کے مواقع،دعویئ آزادی،تنقید کا حق اور اصلاح میں رغبت کے نام پر دشمنی،جھگڑا اور بغض وعداوت کے ذرائع بن کر رہ جائیں اوروہ اس طرح کہ ان کے ذریعے رائے عامہ کو بھڑکایا جائے،مثبت پہلو کو نظرانداز کردیا جائے اور نیکیوں کو دفن کردیا جائے بلکہ اچھائیوں اور برائیوں کے درمیان کوئی موازنہ ہی نہ کیا جائے اور تمھارے لیے یہی کافی ہے کہ بعض ذرائع ابلاغ اور نشریاتی اداروں کے ان کے اپنے مقاصد،ٹارگٹ اور طرف داریاں ہوتی ہیں بلکہ ان کے اپنے آلات ہوتے ہیں جن سے وہ لوگوں کی حمایت اور ان کی شفقت بٹورتے ہیں اور ان کو اپنے کام میں استعمال کرتے ہیں۔

       اے اصلاح کے راغب!تو جان لے کہ صحیح عقیدہ،اچھی عبادت،درست مقصد،دل کی پاکی،اچھا معاملہ اور برتاؤ اور لغزشوں سے چشم پوشی سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ تیزی سے دلوں میں سرایت کرنے والی نہیں ہے اور تو حکم کے مطابق سیدھی راہ پر چل نہ کہ اپنی خواہش کے مطابق۔

       اصلاح کرنے والے پرضروری ہے کہ وہ مخفی طور پر نصیحت کرنے اور نصیحت کردہ کی محبت اور مسلمان کی طرف سے مدافعت کرنے کو لازم جانے اور علم کا فائدہ اور نتیجہ عمل ہے اور عمل کا نتیجہ تقوی ہے۔

       اس کو اپنے منہ میاں مٹھو بننے اور اپنی شخصیت کو شہرت دینے سے پرہیز کرنا چاہئے،اس کو اللہ کے دین کی خدمت کرنی چاہئے نہ کہ وہ اللہ کے دین کو اپنی ذات کے لیے خادم بنالے،اسے حق کو اپنے کندھوں کے ذریعے غلبہ دینا چاہئے نہ کہ وہ خود ہی حق کو اپنی شہرت اور نمایاں ہونے کے لیے کندھا بنالے۔اس کو خواہشات نفسانی،عصبیت،خود پسندی اور غرور سے دور رہنا چاہئے کیوں کہ دین کی سلامتی نفس کی سلامتی سے مقدم ہے اور طریقہ کار کی سلامتی،سلامتی سے پہلے ہے۔

        اسے امت کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والی اور بھائیوں کے درمیان دشمنی و بغض پیدا کرنے والی چیزوں کو پھیلانے کا سبب وذریعہ بننے سے دور رہنا چاہئے، اسے اپنے اقوال و افعال میں انصاف پسند اور اعتدال پسند اور اپنے بھائیوں کے بارے میں اچھاگمان رکھنے والا ہونا چاہئے۔

        اس کے لیے اپنے دلوں کے اعمال کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ وہی اعضاء کے اعمال کے اصل ہیں اور اس کو نا امیدی و مایوسی اور خوف کے اوہام کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔رکاوٹ کا پتھر بننے کے بجائے تعمیرکا پتھر بننا چاہئے،پس اللہ ہی سب سے بہتر حفاظت کرنے ولا ہے اور وہ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ مہربان ہے۔

        اسے اس مخالف کے ساتھ جو سنت والا اور طالب حق ہے، اسلام کی رواداری اور اس کی کشادگی کو یاد رکھنا چاہئے اور اسے مکمل اطمینان ہونا چاہئے کہ حق کی تحریک اور دین کی مدد نہ تو اس تک موقوف ہے اور نہ اس کے اوپر،کیونکہ اسلام کے لیے کام کرنے والوں کی تدبیر خود اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضے اور بندہ کے اخلاص کے بقدرکرتا ہے۔فرمان الٰہی ہے:”اور جب آپ نے پھینکا تو در حقیقت آپ نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (الانفال/۱۷)

       طالب اصلاح نتیجوں اور غلبہ پانے کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کے لیے یہی کا فی ہے کہ اسے اطمینان ہو کہ وہ صحیح راستہ پر ہے اور اپنے رب کا اطاعت گذار ہے اور اس کی ہدایت پر چلنے والا ہے اور اس کے حکم کو بجا لانے والا اور اس کی منہیات سے پرہیز کرنے والا ہے۔اللہ کا فرمان ہے:”آپ کے اوپر ان کو ہدایت دینا نہیں ہے اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔“(بقرۃ/۲۷۲)اور ایک دوسری آیت میں ہے:”اور ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے اگر اللہ ہم کو ہدایت نہ دینا۔“(الاعراف:۴۳)

       اے اصلاح کے طالب! اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دے اور محنت و کوشش کر اور درمیانہ روی واعتدال اختیار کر اور کوئی بھی انسان معصوم نہیں ہے اور خود اپنی ذات پر دین کو قائم کر اور اپنی روش میں اقدار کو بلند کر اور خود اپنے نفس سے انصاف برت اور دلوں و عقلوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے پر توجہ دے، نہ کہ نظروں کو پھرنے پر۔

       خود اپنی ذات میں تبدیل پیدا کر تو تمھارا گرد وپیش خود ہی بدل جائے گا۔ اللہ کا ارشاد ہے:”یقینا اللہ تعالیٰ کسی قوم کو نہیں بدلتا ہے یہاں تک کہ وہ خود سے بدل جائیں (الرعد:۱۱)اور اگر دل درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اور اگر دل بگڑ گیاتو پورا بدن بگڑ جاتا ہے۔رائے عامہ کو بھڑکانے اور مصلحتوں،جماعتوں اور گروپوں کی کشمکش سے دور رہ، ہرگز ہرگز یہ خیال نہ کر کہ تو اپنی خواہش کے مطابق اللہ کی تقدیر کو تقسیم کرنے کا ذمہ دار ہے۔اپنے محبوب کی مصیبت کے بارے میں کہتا ہے کہ اچھا مسلمان ہے اس لیے آزمائش میں ڈالا گیا ہے اور غیروں کی مصیبت کو دیکھ کر کہتا ہے کہ بڑا ظالم شخص ہے اس لیے سزا پا رہا ہے۔اپنے محبوب کے لیے بہانہ اور وجہ جواز تلاش کر رہا ہے اور دوسروں پر ظلم کرتا ہے،اپنے اور اپنوں کے لیے اچھا گمان رکھتا ہے اور غیروں کے لیے بدگمانی کا شکار رہتا ہے۔اے فلاں! ہر شخص عیب والا ہے لیکن اللہ لطف و رحمت والا اور غیب کا جاننے والا اس کے یہاں پردہ پوشی ہے۔

       ابو بکر بن عیاش سے پوچھا گیا کہ سنی کون ہے تو ان کا جواب تھا کہ جب خواہشات نفسانی کا ذکر کیا تو ان میں سے کسی کے لیے اس کے اندر تعصب نہ ہو۔

امام شوکانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ متعصب کی نگاہ بسا اوقات صحیح ہوتی ہے لیکن اس کی بصیرت اندھی ہوتی ہے اور اس کا کان حق کی بات سننے سے بہرہ ہوتا ہے،وہ حق کو چھوڑدیتا ہے حالانکہ اس کا خیال ہوتا ہے کہ اس نے باطل چیز کو چھوڑا ہے۔

        شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ بدعت تفرقہ اور پھوٹ کا سبب ہے جبکہ سنت وحدت اور جماعت کا ذریعہ ہے۔

       تعصب والا آزادی فکر،عالمی تہذیب اور انسانی تمدن پر وادیلا مچاتا ہے اور اپنے مخالف پر تنگ نظری اور تنگ ذہنی کا الزام لگاتا ہے،لیکن یہ تمام اصول وضوابط اور پیمانے اس وقت دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں جب معاملہ اس کا اپنا یا اس کے کسی ماتحت جیسے کتاب،مقالہ،رائے،دوست یا جماعت کا ہوتا ہے۔

       اے ہمارے دینی بھائیو!حق،خیر اور اصلاح والوں پر واجب ہے کہ وہ سب متحد ہوجائیں اور ان میں کا کوئی بھی کسی دوسرے کے لیے بات یا کسی کام کے ذریعے رکاوٹ نہ بنے بلکہ ہر اصلاح پسند اس چیز کی طرف توجہ کرے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے اور جس چیز کو اللہ نے اس کے لیے،اس کے علم وفہم اور سمجھ کے لیے آسان بنادیا ہے کیوں کہ صحیح اور درست اصلاح کاکام صرف باہمی تعاون کے ذریعے ہی پورا ہوگا۔اسی لیے ایک مصلح کی ذمہ داری علم کے اصول وفروع کو نشر کرنا ہو،دوسرے کے ذمہ داری معاشیات،مالیات اور تجارت کو علمی اور عملی طور پر پھیلانا ہو،تیسرے کی ذمہ داری دعوت کے میدان میں وعظ و تبلیغ اور رہنمائی ہو اور چوتھے کی ذمہ داری دانشمندی اور علم کے ساتھ سیاست کو چلاناہو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور ان سے تکرار کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔تمھارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون سیدھی راہ پر ہے             ۔(النمل/۱۲۵)

       دوسرا خطبہ

       سب طرح کی تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے،میں اس پاک ذات کی تعریف کرتا ہوں اور اس کا شکر بجالا تا ہوں جوکہ سخت تاریک رات میں چکنی چٹان پر چیونٹی کے رینگنے کو دیکھتا ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہ اکیلاہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے،تنہا ہے،یکتا ہے اور بے نیاز ہے۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ ایسے رسول جو جھوٹے نہیں ہے اور ایسے بندے جن کی عبادت نہیں کی جاتی ہے (جو معبود یا قابل عبادت نہیں ہیں)،اللہ کی رحمت و برکت نازل ہو آپ پر اور آپ کے خاندان اور آپ ﷺ کے فضیلت و شرافت اور عظمت والے صحابیوں پر اور تابعین پر اور جو بھی احسان کے ساتھ ان کی اتباع کرے ان سب پر۔

       اما بعد:مسلمانوں خصوصا طالب علموں،اصلاح پسندوں اور اہل رائے سے یہ مطلوب نہیں ہے کہ وہ ہر مسئلہ میں بحث کریں اور ہر شعبہ میں دخل دیں اور ہر نئی چیز میں اپنی رائے بیان کریں،جس نے بھی ایسا کیا تو اس نے خلط مبحث کردیا اور بیہودہ کلام کا مرتکب ہوا،اس نے اصلاح سے زیادہ بگاڑ کا کام کیا،عقل مند کو اپنی قدر پہچاننی چا ہئے  اور اپنی صلاحیت و قابلیت کی قدر کرنی  چا ہئے اور صرف اپنے فن و تخصص پر اکتفا کرنا چا ہئے۔

       نہ دھوکا دے اور نہ دھوکا میں پڑکرتمھارے لیے ہر تبدیلی کا ساتھ دینا اور نئی چیز کی پیروی کرنا ضروری ہے۔بنابریں جب بھی کوئی نئی چیز ظاہر ہو تو فوراًاپنی توجہ بدل دے۔

       ہر ایک اہل فن کے لیے اس کا فن چھوڑدو اور ہر اہل علم کا اس کا اپنا علم ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”اور ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے“۔(یوسف/۷۶)

       جو تم جانتے ہو اس کو لازم پکڑو اور اپنی طاقت کے بقدر ہی چلو اور باقی اس کے اہل پر چھوڑدو اور یہ جان لو کہ کل کا طالب ہر چیز کو کھودیتا ہے،پس ہر چیز میں شرکت آگہی کی دلیل نہیں ہے اور نہ مسلمان کے معاملہ میں دلچسپی لینے کی نشانی ہے بلکہ یہ تو کبھی کم عقلی اور ذمہ داریوں کی ضائع ہونے کی دلیل ہوتی ہے اور عقلمند وہی ہے جو گفتگو کرنے یا رائے کا اظہار کرنے میں جلدی نہیں کرتا خصوصا ایسی صورت میں جب کہ علماء،تجربہ کار اور ماہرین فن موجود ہوں جو اس کی طرف سے کافی ہیں۔اس زمانہ کی یہ ایک بڑی آزمائش ہے کہ مختلف موضوعات مثلاً دینی،سیاسی،معاشی،معاشرتی،تعلیمی اور تربیتی وغیرہ لوگوں کے سامنے مجلسوں،میٹنگوں اور ٹویٹر پربکھرے پڑے ہیں لیکن معلوم ہو کہ ان سب میں مداخلت کرنے کی رغبت تعمیری نہیں بلکہ تخریبی ہے اور یہ صحیح طریقہ کار کے خلاف۔ہمارے شیخ علامہ ابن عثیمین کا کہنا ہے کہ عمر بن خطاب اور ان سے پہلے ابو بکر اپنی سیاسی پالیسیوں کے بارے میں عوام میں اعلان نہیں کرتے تھے تاکہ اس کے بارے میں ہر کس و ناکس بے وقوف اور عقلمند گفتگو کرے اور ایسی سیاست ممکن ہی نہیں ہے۔

       اے اللہ کے بندو!اللہ سے ڈرو اور ہر اصلاح پسند اس چیز کی طرف توجہ کرے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے اور جس چیز کو اللہ نے اس کے لیے اس کے علم و فہم اور عقل میں آسان بنا دیا ہے۔ اس کی ذات سے اللہ کو بھلائی،سچائی اور عدل نظر آنی چاہئے،اور اللہ اپنے امر پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں اور اب درود وسلام بھیجو۔

 

 

 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: