موجودہ حالات کووڈ -19 کے پیش نظر قربانی میں اعتدال سے کام لیجیے۔


أپنے مسلمان بھائیوں سے ایک ہمدردانہ گذارش
موجودہ حالات کووڈ -19 کے پیش نظر
اس سال کی  قربانی میں اعتدال سے کام لیجیے۔


برادران اسلام : اعتدال و و سطیت اسلام کی ایک نمایاں خوبی و عظیم الشان صفت ہے۔اور یہ خوبی اس کے جملہ احکام میں موجود ہے۔اسلامی احکام غلو و تقصیر , افراط و تفریط , کمی و زیادتی سے پاک ہیں ۔ اسلام کا کوئی بھی حکم ایسا نہیں ہے جو نفس انسانی پر بہت ہی شاق ہو یا اس کی فطرت کے خلاف ہو یا انسانی طاقت سے پرے ہو۔اور اس امت کو اللہ تعالى نے امت وسط بنایا ہے۔اور ہمارا اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم ہر چیز میں و سطیت و اعتدال پسندی کو أپنائیں۔ اس پر عمل کریں۔کیونکہ اس میں بہت زیادہ فوائد ہیں۔ اور اعتدال پسندی ایک مسلمان سے ہر حال میں اور  ہمہ وقت مطلوب ہے لیکن موجودہ حالات میں اور زیادہ مطلوب ہے۔
 
اعتدال پسندی کے بارے میں تفصیل سے جاننے کے لیے آپ یوٹیوب پر میرا ویڈیو دیکھ سکتے ہیں جس کا لنک ہے: https://www.youtube.com/watch?v=K8jCMN5_JcU

یا  درج ذیل الفاظ لکھ کر سرچ کر سکتے ہیں:-
Dr Abdul Mannan :The Importance of Following the Path Of

 Moderation                                                 اعتدال کی راہ أپنانے کی ضرورت    

علاوہ أزیں قربانی ہی نہیں بلکہ تمام اسلامی عبادات میں اخلاص  مطلوب ہے ۔ اور اخلاص کے بغیر مسلمان کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہے۔بلکہ باعث عقاب و گناہ ہے۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس زمانہ میں ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی  ریاء و نمود, شہرت اور فخر و مباہات کے لیے قربانی کرتے ہیں۔ لاکھوں کا جانور خریدتے ہیں۔ ایک دو کے بجائے دسیوں قربانی کرتے ہیں۔اس کو شوسل میڈیا میں نشر کرتے ہیں۔لوگوں میں پرچار کرتے ہیں۔ ان سب کی وجہ سے ان کی قربانی رائیگاں و برباد ہوجاتی ہے۔ثواب کے بجائے عذاب کا سبب بن جاتی ہے۔

نیز ہم پوری دنیا کے مسلمان اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ  اس سال  1441 ھ / 2020 ع کی قربانی ایک ایسے وقت میں کرنے جار ہے ہیں جب پوری  دنیا ایک مہلک و خطرناک وباء میں مبتلا ہے۔اور یہ وباء فی الحال دن بدن پھیلتی جا رہی ہے۔ لاکھوں لوگ وفات پاچکے ہیں اور کروڑوں اس سے متاثر ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ خصوصا تعلیم و تربیت , تجارت, معاش, سفر و سیاحت, صنعت و حرفت  وغیرہ پر زبر دست اثر پڑا ہے۔اس کے نتیجہ میں لاکھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ہم میں سے بہت زیادہ لوگ  غریبی و مفلسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔دانے دانے کے محتاج ہیں۔ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔اس وباء نے لاکھوں کو مفلسی و غریبی کے عمیق  غار میں ڈھکیل دیا ہے۔ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کردیا ہے۔وغیرہ ۔ ویسے بھی اکثر  انڈین مسلمانو کی معاشی حالت اس وباء سے پہلے بھی کوئی بہت زیادہ اچھی نہیں تھی ۔اکثر مسلمان خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے تھے۔ اور اب  اس وباء نے مزید اس کو خراب کردیا ہے۔

ایسی صورت میں ہم مسلمانوں کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے اور شریعت کی روشنی میں ہمارے اوپر فرض ہوجاتا ہے کہ اس سال قربانی میں ریاء و نمودسے بچتے ہوئے اور فخر و مباہات سے پرہیز کرتے ہوئے اعتدال پسندی سے کام لیں ۔اگر اللہ نے ہم کو وسعت دی ہے تو قربانی میں بہت زیادہ یا حد سے زیادہ پیسہ صرف کرنے  کے بجائے وہی پیسہ ہم غریبوں و مسکینوں پر خرچ کریں۔مثال کے طور پر پچاس ہزار کے بجائے ہم صرف پندرہ بیس ہزار کی قربانی کریں یا دوچار بکرا  کے بجائے صرف ایک بکرا کی قربانی کریں  اور بقیہ مبلغ فقیروں و مسکینوں میں تقسیم کردیں۔اور ان کی خوب زیادہ مدد کریں۔ کیونکہ بہت سارے مسلمانو کو  زندہ رہنے کے لیے گوشت سے زیادہ اناج و غذا کی ضرورت ہے ۔گوشت کے بغیر ایک انسان زندہ رہ سکتا ہے لیکن اناج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ اور یقین جانئے کہ اگر آپ  کسی فقیر و مسکین کو گوشت کے ساتھ راشن بھی بھیجتے ہیں تو یہ نور على نور ہوگا۔فقیر و محتاج  کی خوشی دوبالا ہوجائے گی ۔اور آپ کو قربانی نیز خدمت خلق کا  دوہرا أجر ملے گا۔کیونکہ  خدمت خلق میں  بھی بہت زیادہ ثواب ہے۔آپ اس لنک پر میرا یہ مضمون " خدمت خلق کا عظیم اجر و ثواب" مطالعہ کرسکتے ہیں۔ http://www.drmannan.com/2016/09/blog-post.html


میں آپ سے قطعا یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ قربانی ہی مت کیجیے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں۔ کیونکہ یہ سراسر خلاف شریعت ہے۔ بس میں آپ سے صرف اور صرف ریاء و نمود سے بچتے ہوئے قربانی میں اعتدال پسندی کا مطالبہ کررہا ہوں جو شرعا و عقلا دونوں اعتبار سے مطلوب ہے ۔دین اسلام اور موجودہ حالات دونوں کا تقاضہ ہے۔ اور جس میں ہم سب کے لیے بہت زیادہ فوائد ہیں۔ امید کہ ہم سب اس پر عمل کرں گے۔

 اور آخر میں یہ بھی عرض کردوں کہ آپ جہاں کہیں بھی ہیں اور جس بھی ملک کے رہنے والے ہیں۔موجودہ حالات کے پیش نظر قربانی کرتے ہوئے وہاں  کے قوانین  پر عمل ضرور کیجیے۔ قانون شکنی سے بچیے۔اگر  کھلے میدان یا مسجد یا عیدگاہ وغیرہ میں باجماعت نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے تو مت ادا کیجیے۔مکمل طور سے سرکاری ہدایات پر عمل کیجیے۔اور یقینی طور پر جان لیجیے کہ یہ تمام مصائب و پریشانیاں ہمارے برے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ اللہ عز وجل کا ارشاد ہے: وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم و یعفو عن کثیر ( شورى/ 30 )  یعنی تم کو جو بھی مصیبت پیش آئی ہے وہ تمھارے أپنے اعمال کا نتیجہ ہے اور اللہ بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے۔۔
لہذا ے مسلمانو: اگر ہم مصائب و پریشانیوں سے دور رہ کر امن و امان, سکون و اطمینان  سے رہنا چاہتے ہیں تو أپنی روش کو بدلو ۔ برے کاموں کو چھوڑو۔ صالح اعمال انجام دو۔مکمل طور سے اسلام پر عمل کرو۔ ورنہ یونہی ذلیل و رسوا ہوتے رہو۔
اللہ تعالى ہم سب کو صالح أعمال کی  توفیق عطا کرے ۔ آمین



التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

1 التعليقات:

avatar

إن شاء الله.
جزاك الله خيرا