موجودہ دور میں مسلمان عورتوں پر ظلم و ستم


                      موجودہ دور میں  مسلمان عورتوں پر ظلم و ستم


یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے دین اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے  عورتوں کو جو حقوق عطا کیے ہیں وہ آج تک کسی دیگر دین و مذہب , ملک یا حکومت نے ان کو عطا نہیں کیے ہیں۔ اور ان کی جتنی تکریم  و تشریف,  اکرام و تعظیم , قدر و منزلت اسلام نے کی ہے اتنی  دنیا کے کسی بھی دین و مذہب تہذیب و ثقافت نے قطعا نہیں کی ہے۔ لیکن افسوس و تکلیف  کی بات یہ ہے کہ اسلام نے   عورت کو بیٹی, بیوی اور ماں کی حیثیت سے جو بلند مقام و مرتبہ عطا کیا ہےاس کو آج کے زمانہ میں ہم میں سے بہت سارے مسلمان  بنا کسی شرم و حیاء کے أپنے پیروں تلے روند رہے ہیں جس  کا سلسلہ بچی کی پیدائش سے لے کر اس کی وفات تک جاری رہتا ہے۔۔اور  اس باب میں  ہم  نام نہاد مسلمانو کے افعال و اعمال اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے  ہیں ۔ 
 اور ایک رپورٹ سے یہ بات  سامنے آئی ہے کہ آج کی اس ماڈرن و ترقی یافتہ  دنیا میں ہر تیسری عورت پر تشدد ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر تیسری عورت  ظلم و تشدد کا شکار ہے۔ بلا شبہ یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔در حقیقت یہ ایک ایسی رپورٹ ہے جو ہم  مردوں کی حقیقت کو  آشکارا کرتی ہے اور عورتوں کے تئیں ہمارے سلوک و برتاؤ , فکر اور سوچ نیز نقطہ نظر کی وضاحت کرتی ہے۔ میری تو یہی دعا ہے کہ اس میں مسلمان عورتوں کی تعداد کم ہو لیکن اس کی توقع کم ہی ہے کیونکہ اس دور میں مسلمان جرائم میں دوسری قوموں سے پیچھے نہیں بلکہ دو قدم آگے ہی  ہیں۔
 خیر – معاملہ کچھ بھی ہو - عصر حاضر کے اس  ترقی یافتہ زمانہ میں بھی  ہمارے بہت سارے مسلمان سماج و معاشرہ میں  بچیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔لڑکوں کو لڑکیوں پر فضیلت دی جاتی ہے۔پرورش, خور د و نوش, تعلیم و تعلم نیز دیگر  عنایت  و اہتمام میں  بچوں و بچیوں  کے درمیان  تفریق کی جاتی ہے ۔ ہبہ و عطیہ میں بچیوں کے ساتھ ہمارا سلوک  و معاملہ غیر منصفانہ و  امتیازانہ ہوتا ہے۔

آج کے دور میں بھی  بہت سارے گھروں  میں جب بچی کی ولادت ہوتی ہے تو وہ بچی کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ ان کا چہرہ لٹک جاتا ہے۔وہ غم و اندوہ میں ڈوب جاتے ہیں۔وہ بچی کو رحمت کے بجائے زحمت تصور کرتے ہیں۔اور اگر کسی کے گھر میں صرف بچیوں کی پیدائش ہوتی ہے تو اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔اس کا غصہ ساتویں آسمان کو پہنچ جاتا ہے۔اور بسا اوقات جہالت کی وجہ سے طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔جب کہ اس میں بیوی کى کوئی غلطی نہیں ہے۔
اس زمانہ میں بھی بہت سارے لوگ أپنی  بالغ بچیوں کی بھی  شادی زبردستی کردیتے ہیں اور اس سے اجازت تک نہیں لیتے ہیں۔ مشورہ کرنا تو دور کی بات ہے۔اور آج سب سے بڑا سماجی ظلم جو بہت سارے والدین کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ لڑکا کسی قابل و لائق نہیں ہے۔ان پڑھ و جاہل ہے ۔ بد صورت و بد چلن ہے۔ بے نمازی و غیر پابند شریعت ہے۔ممکن ہے کہ شراب و جوا کا بھی عادی ہو۔لیکن ان سب  کے باوجود وہ  أپنے اس لڑکا کے لیے بھی خوبصورت, خوب سیرت, لائقدار ,  ہنر مند, پڑھی لکھی لڑکی تلاش کرتے ہیں۔أپنے لڑکے کے سارے عیوب کو پوشیدہ رکھتے ہیں اور لڑکی کے سارے عیوب کو جاننے کی کوشس کرتے ہیں۔ آخر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا۔کیا کوئی لڑکی یا لڑکی والا پسند کرے گا کہ اس کے ساتھ ایسا ہو اور کس منہ سے والدین ایسا کرپاتے ہیں؟ اور قیامت کے دن اللہ کا سامنا کیسے کریں گے؟کیا ان کا یہ عمل شریعت کے موافق ہے؟ کیا ایسا کرنا ان کو زیب دیتا ہے؟

اور اگر لڑکا صاحب حیثیت, خوبصورت , تعلیم یافتہ ہو گرچہ شریعت کا پابند نہ ہو تو پھر اس کا کیا پوچھنا ہے۔ اس کے والدین اس کے لیے صرف خوبصورت , ہنر مند و پڑھی لکھی لڑکی نہیں تلاش کرتے ہیں بلکہ وہ تو حسن و جمال کی پری اور خصوصا لڑکا و عموما اہل خانہ کی طرف سے متعین کردہ تمام مطلوبہ صفات کی حامل  لڑکی تلاش کرتے ہیں جس کا ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔اور اگر لڑکا خوبصورتی, تعلیم  و حیثیت کے علاوہ صاحب منصب بھی  ہو۔تو اس کا  اور اس کے گھر والوں کا پاؤں زمین  پر پڑتا ہی نہیں ہے۔وہ لوگ أپنے جامے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ان کا نخرہ قابل دید ہوتا ہے۔ان کی  طرف سے لڑ کی کی مطلوبہ صفات میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ ڈیمانڈ بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ غرضیکہ جو لڑکا جتنی زیادہ خصوصیات کا حامل اور قابلیت  و صلاحیت کا مالک  ہوتا ہے وہ  بازار خرید و فروخت میں اتنا ہی بڑا بکاؤ مال بن جاتا ہے۔اور اس کی غیرت و انسانیت اتنی ہی زیادہ مرجاتی ہے۔اور اس کا شرم ختم ہوجاتا ہے۔اذا لم تستحی فاصنع ما شئت کا نمونہ بن جاتا ہے۔
اللہ کی پناہ: آج کے زمانہ میں ہمارے بعض مسلم نوجوان  لڑکی میں اتنی باریک  اور دقیق شروط مثلا کمر کی موٹائی, گردن کی لمبائی , ناک کی اونچائی , دانت کی سفیدی , جلد کی رنگت , بال کا حسن  وغیرہ  لگاتے ہیں جن کا زمانہ قدیم میں کوئی تصور نہیں تھا۔میری رائے میں یہ کبر و غرور کی علامت اور اپنے کو کامل سمجھنے کی دلیل ہے۔ گویا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کے اندر کوئی عیب نہیں ہے۔جب کہ دنیا کا کوئی بھی انسان انبیاء کو چھوڑ کے کامل نہیں ہوتا ہے۔ اور ہر کسی کے اندر کوئی نہ کوئی کمی یا خرابی پائی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے مسلم سماج و معاشرہ میں ہزاروں عمر دراز بیٹیاں  و بہنیں بغیر شادی کے بیٹھی ہوئی ہیں اورغیر شادی شدہ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف  والدین پریشان و حیران ہیں دوسری طرف ہماری بیٹیاں و بہنیں ماں بننے کی عظیم الشان و جلیل القدر  نعمت سے محروم ہیں۔ماں کے فضائل و حسنات  کے حصول سے عاجز ہیں۔ان کی گود سونی ہے۔ان کی  دنیا بے رونق ہے۔ان کی زندگی تنہا ہے۔اور یہ زمین أپنی وسعت کے باوجود ان کے لیے تنگ ہے۔

ہمارے سماج میں عورتوں پر ظلم کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ بہت سارے لوگ أپنی بچوں و بچیوں کی شادی میں بلوغت کے بعد بھی بلاوجہ بہت زیادہ تاخیر کرتے ہیں۔بہت سارے سرپرست  أپنی ملازمت پیشہ لڑکی کی شادی  عمدا صرف اس لیے نہیں کرتے ہیں تاکہ اس کے مال کو زبر دستی  استعمال کریں جو سراسر ناجائز ہے۔ اس طرح وہ دوہرے ظلم و جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
نہایت بے حیائی کے ساتھ  میراث میں عورتوں کا حق ہم مار کے کھا جاتے ہیں جو شرعی اعتبار سے سراسر حرام ہے ۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: و من یعص اللہ و رسولہ و یتعدحدودہ یدخلہ نارا خالدا فیہا و لہ عذاب مہین( نساء/ 14 ) ترجمہ: جو اللہ و اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے متعین کردہ حدود سے تجاوز کرے گا تو اللہ تعالی اس کو جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ ہمیش رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔


اس  آیت کا  تذکرہ  اللہ سبحانہ و تعالی نے میراث کی تقسیم کا طریقہ اور وارثین کے حصوں کے ذکر کرنے کے بعد کیا ہےاور واضح طور پر بتلایا ہے کہ یہ اس کے حدود ہیں۔ عورتوں کو میراث میں ان کا حق نہ دینا اور  اس پر عمل نہ کرنا  اللہ کے حدود سے تجاوز کرنا ہے جو عذاب جہنم کا موجب ہے۔ اس سے مسئلہ کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ گنا ہ کبیرہ ہے, اس پر سخت وعید ہے۔  لیکن   اس واضح وعید و شدید دھمکی کے باوجود حرام کھاتے ہوئے ہم کو شرم نہیں آتی ہے۔ اپنی  نقلی مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے  بیویوں کی کمائی پے ڈاکہ ہم ڈالتے ہیں۔جبکہ بیوی کی کمائی کا اس کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا حرام ہے۔

 ہم میں سے بہت سارے بے غیرت نوجوان لڑکیوں  کے والدین سے ڈاکؤوں کی طرح بے غیرتی و بے شرمی کے ساتھ جہیز کا مطالبہ کرتے ہیں جو نہ صرف مردانگی کے خلاف ہے بلکہ دینی اعتبار سے  سراسر حرام ہے۔اور  میری رائے میں آج کے زمانہ  و حالات کو دیکھتے ہوئے خواہ جہیز طلب اور مانگ  کرکے لیا جائے یا لڑکی کا باپ أپنی خوشی سے دے دونوں صورتوں میں حرام ہے۔ کیونکہ آج کے زمانہ میں والدین ایسا کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ اور بہت سارے لوگ صرف سماج ومعاشرہ کے ڈر سے مجبورا  ایسا کرتے ہیں۔
اسی طرح  مسلمان عورت پر ظلم کی ایک  واضح مثال اس کے مہر کا نہ ادا کرنا ہے۔ بہت سارے مسلمان اس میں ٹال مٹول کرتے ہیں اور اسے بہت ہلکے میں لیتے ہیں جب کہ وہ بیوی کا شرعی حق ہے جس میں کوتاہی کرنا باکل درست نہیں ہے۔پہلے ہی ہمارے علماء و فقہاء نے اس کو دو قسموں معجل و مؤجل میں تقسیم کرکے بہت آسانی پیدا کردی ہے۔ جس کا بہت سارے لوگ خصوصا جن کی نیت میں کھوٹ ہوتا ہے اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

اور آج کل ایک رسم مسلمانوں میں  میراث و مہر کو معاف کرانے کی چلی ہے۔ہم میں سے بہت سارے مسلمان بھائی تقسیم وراثت سے قبل عورتوں کو بلا کے ان  کا حق دئیے بغیر ان سے میراث سے تنازل کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنا حق معاف کردو۔اسی طرح بہت سارے نوجوان مہر کو  سونپے  بغیر مہر کو معاف کرا لیتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں سراسر غلط و ناجائز ہیں۔کیونکہ بہت ساری عورتیں صرف اس لیے معاف کردیتی ہیں کیونکہ ان کے اوپر سماجی دباؤ ہوتا ہے۔ وہ سوچتی ہیں کہ نہ معاف کرنے کی صورت میں ان کی بدنامی ہوگی ۔ سماج و معاشرہ میں ان کی عزت نہیں رہے گی۔ اسی طرح معاف کرنے کے لیے أقرباء بالخصوص بھائیوں کا  بھی دباؤ ہوتا ہے  ۔لہذا یہ معافی شریعت میں قابل اعتبار نہیں ہے۔علاوہ أزیں دونوں صورتوں یعنی مہر و میراث  میں عورت أپنے حق کی مالک نہیں بنی تو پھر وہ کیسے معاف کر سکتی ہے۔شریعت کی رو سے جب تک کوئی چیز قبضہ میں نہ آجائے ایک انسان اس کا مالک نہیں ہوتا ہے۔یہ تو معاف کرانے کا ایک حیلہ و بہانہ ہے۔اصل تو یہ ہے کہ پہلے عورتوں کو ان کا حق دیدیا جائے۔ جب ان کو ان کا حق مل جائے اور وہ اس کی مالک بن جائیں۔ اور پھر  اگر وہ أپنی رضامندی سے بنا کسی دباؤ کے  معاف کردیں تب اس کو شرعی اعتبار سے صحیح مانا جائے گا۔باین صورت مرد کے لیے استعمال کرنا صحیح ہوگا ورنہ نہیں۔

ہمارے بعض گھروں میں ساس کا  أپنی بہو کے ساتھ معاملہ  انتہائی غیر مہذبانہ بلکہ بسا اوقات ظالمانہ و جابرانہ ہوتا ہے۔بہو کو لانے کے چند دنوں یا مہینوں کے اندر  ساس  کا معاملہ یکسرتبدیل ہوجاتا ہے۔ وہ أپنے کو گھر کا  مختار کل اور ملکہ سمجھتے ہوئے أپنے بہو  کے ساتھ غلط  برتاؤ کرنے لگتی ہے۔ وہ بہو کو نہ صرف أپنی خدمت پر مجبور کرتی ہے بلکہ مشترکہ خاندانی نظام  رائج ہونے کی وجہ سے  پورے گھر والوں کی اس سے خدمت کرواتی ہے۔ وہ اس کو أپنی  لونڈی اور باندی سمجھتی  ہے۔ گھر کو اس کے لیے جہنم بنا دیتی ہے۔ اس کے لیے آرام حرام ہوجاتا ہے۔ کیا مجال ہے کہ وہ اس کے کسی حکم کا انکار کردے یا اس کے سامنے منہ کھول دے۔ بعض میاں صد فیصد حق و باطل کو جانے بغیر بنا کسی رو رعایت کے  اپنی ماں کا ساتھ دیتے ہیں اور وہ بھی ظلم میں برابر کے شریک ہوجاتے ہیں۔بعض مرد حضرات باہر کا غصہ أپنے گھر میں أپنی کمزور و مجبور بیویوں پر اتارتے ہیں اور اسے أپنی شان سمجھتے ہیں اور مردانگی کی علامت تصور کرتے ہیں۔ گھر سے باہر بھیگی بلی اور گھر کے اندر شیر کی طرح مظاہرہ کرتے ہیں۔کیا مجال ہے کہ کوئی عورت زور سے بلند آواز میں ان کے سامنے بات کرے یا ان پر  ذرا سا غصہ ہوجائے۔یہ تو نا قابل معافی جرم ہےاور اس کا تصور بھی محال ہے۔

اور آج کے زمانہ میں ہم میں سے بہت سارے مسلمانو نے اللہ کی آیت "طلاق " کو کھیل بنا لیا ہے۔ادھر کیا بیوی سے کوئی معمولی بھول چوک ہوئی ادھر بے قابو  میاں کی زبان سے دنادن طلاق کے گولے دغنے لگتے ہیں ۔ اور عموما تینوں گولے اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہوئے   اور بنا  تعلیمات شریعت کی رورعایت  کے ایک ساتھ داغ دئیے جاتے ہیں جس سے نہ صرف ہمارے ماؤں و بہنوں کی عزت نیلام ہوتی ہے۔  حلالہ کا حرام و ناجائز کاروبار کا بازار گرم ہوتا ہے۔ بلکہ ہمارا سچا و پیارا دین بھی بدنام ہوتا ہے۔ اور غیر مسلموں کے طعنہ کا نشانہ بنتا ہے ۔ پھر بھی تقلید و تعصب میں مبتلا مسلکی ٹھیکیداروں کے آنکھوں سے پردہ زائل نہیں ہوتا ہے۔

بناکسی وجہ کے یا معمولی سبب سے ہم اپنی بیویوں کو طلاق دینے میں کوئی عار و شرم نہیں محسوس کرتے  ہیں۔ جب کہ طلاق دینا اللہ کے حدود میں سے ایک حد ہے ۔اور اس کے حد کو تجاوز کرنا ظلم ہےاور ایسا کرنے والا ظالم ہے ۔ کیونکہ طریقہ طلاق و اس کے اصول و ضوابط کے بعد اللہ تعالى ارشاد فرماتا  ہے: تلک حدود اللہ فلا تعتدوہا  و من یتعد حدود اللہ فاولئک ہم الظالمون(بقرہ/229) یعنی یہ اللہ کے حدود ہیں لہذا اس سے تجاوز مت کرو اور جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرے گاوہی لوگ ظالم ہیں۔ معلوم ہواکہ بنا کسی وجہ کے طلاق دینا سراسر  ظلم ہے اور ظلم کرنا کسی  پر بھی حرام ہے خواہ وہ ایک حیوان ہی کیوں نہ ہو۔کیونکہ طلاق  کا استعمال اس  سے پہلے کے  تمام مراحل کو عمل میں لانے کے بعد  صرف انتہائی ناگزیر حالت میں ہی درست ہے۔ لیکن ہم مسلمانو نے اللہ کے اس حکم  و سہولت کو  مذاق  بنا لیا ہے جب کہ اللہ تعالى نے أپنی آیتوں کو مذاق بنانے سے روکا ہے: ولا تتخذوا آیات اللہ ہزوا  (بقرہ/231)  یعنی اللہ کی آیتوں کو مذاق مت بناؤ ۔اس کا بھی ذکر اللہ سبحانہ و تعالى نے احکام طلاق کے بعد کیا ہے۔نیز   ہم میں  سے بعض بے شرم تو ایسے ہوتے ہیں جو أپنی بیویوں پر دست درازی کرتے ہیں۔ ان کو مارتے اور پیٹتے ہیں۔اور کتنے بے حیاء ایسے ہوتے ہیں جو جہیز نہ لانے یا کم لانے کی وجہ سے ان کو ستاتے ہیں , تنگ کرتے ہیں اور بسا اوقات قتل کر دیتے ہیں۔اور بعض بچے نہ پیدا ہونے یا صرف لڑکی کی پیدائش کی وجہ سے ان پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھاتے ہیں۔گویا کہ لڑکی یا لڑکا کا پیدا کرنا اللہ کے اختیار میں نہ ہو کے  عورت کے اختیار میں ہے۔

بعض علاقوں و معاشروں میں ان کے ساتھ آج بھی زمانہ جاہلیت جیسا برتاؤ ہوتا ہے۔قبائلی علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کرنا ایک عام بات ہے۔والدین کی مرضی کے خلاف یا محبت کی شادی کرنے پر بھی ان کو قتل کر دیا جاتا ہے۔آج کے دور میں بھی ان کے ساتھ جانوروں سے بھی برا معاملہ کیا جاتا ہے۔


آج کے دور میں ہم میں سے بہت سارے مسلمانو کا عورتوں کے ساتھ برا معاملہ اور خراب برتاؤ اس بات کی علامت ہے  کہ ہمارا سماج انتہائی خراب ہو چکا ہے۔ ہمارا اخلاق بہت ہی گرچکا ہے ۔ اور ہم أخلاقی ناحیہ سے تباہ و برباد ہوچکے ہیں ۔ ہمارے اندر بھلائی اور اچھائی کی بہت کمی ہے۔ہم میں أچھے و بھلے لوگ کم ہیں ۔ نیک و صالح أفرادکی قلت ہے۔ اس کی دلیل أم المؤمنین حضرت عائشہ  کی یہ روایت ہے: عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي،( ترمذی و ابن ماجہ) ترجمہ: حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ صلى اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر و اچھا  وہ شخص ہے جو أپنے اہل و عیال کے لیے اچھا و بہتر ہے۔اور میں تم سب میں أپنے اہل و عیال کے لیے سب سے اچھا ہوں۔

معلوم ہوا کہ أپنے اہل و عیال کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ کرنا أچھائی و بھلائی کی علامت ہے۔ایک صالح سماج کی نشانی ہے۔کیونکہ ایک  اچھا و بھلا انسان ہی  أپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔ ظلم و ستم سے دور رہتا ہے۔جبکہ ایک برا انسان أپنی بیوی پر ظلم کرتا ہے۔اس کے ساتھ برائی سے پیش آتا ہے۔اور یہ ایک غیر صالح سماج کی علامت ہے۔ اسی لیے یہ بات  سچ ہے : ما أکرمہن الا کریم و ما اہانہن الا لئیم یعنی ایک أچھا انسان عورتوں کی قدر کرتا ہے۔ ان کے ساتھ عزت سے پیش آتا ہے۔جبکہ ایک کمینہ انسان ان کی بے عزتی کرتا ہے اور ان کے ساتھ ذلت سے پیش آتا ہے۔
 کیا ہمیں أپنے پیارے نبی کی تعلیمات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔کیا  ہمیں اللہ کا کوئی خوف نہیں ہے ۔ کیا  ہمیں قیامت کے دن کی سزا و جزا کوئی یقین نہیں ہے؟
کیا ان سب کے باوجود ہم کو شرم نہیں آتی ہے؟

مسلمانو: ان تعلیمات کی روشنی میں کیا ہم أپنے اخلاق کو بدلنے کے لیے تیار ہیں۔ کیا ہم أپنی عورتوں کو ان کے مکمل حقوق کو ادا کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔کیا ہم أپنی شریعت کے مطابق عورتوں کا احترام کرنے کے لیےکمر بستہ ہیں۔

برادران اسلام : آئیے ہم اور آپ عہد کرتے ہیں کہ ہم  أپنی عورتوں کو ان کے کامل حقوق دیں گے۔ان کے اوپر کسی طرح کا کوئی ظلم نہیں کریں گے بلکہ ان کے اوپر ہونے والے مظالم کا خاتمہ بھی کریں گے۔ان کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لیں گے۔تبھی ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہین۔ اللہ تعالى ہم سب کو  اسلام کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین 







التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: