غیر مسلم سفراء کے قتل سے متعلق چار سوالوں کے جوابات

      غیر مسلم   سفراء کے قتل سے متعلق چار سوالوں کے جوابات
                                                   پہلی قسط

ہمارے ایک بھائی نےغیر مسلم سفراء کے قتل کے تعلق سے   اہل علم سے چار سوالات کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مان لیا اسلام میں سفیر کا قتل جائز نہیں ہے ۔ لیکن ہمارے سوالات یہ ہیں :۔۔۔کیا ایک مسلم قومی ریاست کے یہاں کسی معاہد کافر ملک کا سفیر کسی دوسری قومی ریاست کے لیے جس سے اس کافر ملک کا معاہدہ نہ ہو, بھی حرام الدم ہوگا؟ دلیل؟

جبکہ ایک کافر ملک نے کسی مسلمان ملک پر حملہ کر رکھا ہوتو اس ملک کے عوام کے لیے کسی دوسرے مسلم ملک میں اس حملہ آور کافر ملک کا سفیر حرام الدم ہوگا؟ دلیل؟

مزید پیچیدہ صورت حال میں حملہ آور کافر ملک مسلم عوام کو ان کی بظاہر مسلم  لیکن حقیقتا کافر ملک کے ساتھ مل کر بلکہ اس کی دعوت پر وحشیانہ طریقے سے قتل کر رہا ہو , تو کیا اس جارح ملک کا پڑوسی ملک میں سفیر مظلوم و مقتول عوام کے لیے حرام الدم ہوگا؟ دلیل؟

اگر ایک مسلم  ریاست کا اہلکار اپنی حکومت سے شرعی بنیاد پر اختلاف کرکے پڑوسی مسلم ریاست بلکہ عوام سے وفاداری کا اظہار کرے ۔اور ان کے مفاد میں أپنی قومی ریاست کے مفاد کے خلاف کام کر بیٹھے جسے وہ شرعی طور پر جائز سمجھتا ہو تو کیا  ایسا شخص شرعا غدار کہلائے گا؟ اس کی سزا کیا ہوگی؟ دلیل؟

ضمنا حضرت ابوجندل کی مثال پر بھی روشنی ڈالیں کہ  کیوں انھوں نے انفرادی سطح پر چھاپہ مار کاروائیاں کرکے بظاہر اسلامی ریاست کے لیے اسی طرح مشکلات پیدا کرنے کی کوشسیں کیں جیسا کہ ترک پولس افسر نے انفرادی فیصلے کے تحت روسی سفیر کو مار دیا؟ اور نبی کریم نے انھیں کیا سزا دی؟یہ چار سوالات ہیں  ان میں سے اوپر کے  تین سوالات تین  مختلف حالات میں سفراء کے قتل سے متعلق ہیں ۔ اور یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا ان تینوں حالات میں سفیر کا خون حلال ہوگا؟
    اس کا جواب ہے کہ ان تینوں حالات میں سفیر کا قتل گناہ کبیرہ ہے ۔ کسی بھی صورت میں اس کا قتل جائز نہیں ہے۔ خواہ اس اسلامی ریاست کا سفیر کے  کافر ملک سے معاہدہ ہو یا نہ ہو۔اسی طرح عوام کے لیے سفیر کا خون حلال نہیں ہوگا خواہ وہ عوام مظلوم ملک کے ہوں یا کسی بھی ملک کے ہوں۔ عوام کا کسی بھی صورت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا درست نہیں ہے ۔ فیصلہ کرنا اور سزا دینا عوام کا کام نہیں ہے ۔یہ شرعا ممنوع ہے۔دلیل وہی ہے جو میں نے اپنے مضمون "ترکی میں متعین روسی سفیر کے قتل کا شرعی جائزہ  " میں ذکر کیا ہے ۔ اس کے علاوہ جب ایک غیرمسلم کسی بھی اسلامی ملک میں داخل ہوگا تو وہ اس ملک کی اجازت سے داخل ہوگا۔ اور یہی اجازت نامہ اس کے لیے معاہدہ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ وہ اب اسلامی ملک کی حمایت, امن و پناہ میں ہے ۔ لہذا اس کی حفاظت نہ اب صرف مسلم ملک کی ذمہ داری ہے بلکہ تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔اس مسئلہ میں معاہدہ ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آج کے دور میں تمام اسلامی و غیر اسلامی ممالک بین الاقوامی معاہدات میں بندھے ہوئے ہیں۔ انہیں میں سے ایک معاہدہ سفراء سے بھی متعلق ہے جس کی پاسداری  ہر حال میں ضروری ہے ۔
       اب میں اسلام کے چند عام اصول و ضوابط  دلیل کے ساتھ باختصار تحریر کردیتا ہوں ۔ انھیں میں ان تینوں سوالوں کا مزید  جواب ہے۔آپ تفصیل کے لیے میرے مضمون" امن عالم اور اسلام" کا مطالعہ کیجیے۔جو محدث جنوری 2014 ع میں شائع ہوا ہے اور جو انٹر نٹ پر بھی دستیاب ہے۔

 شرعی نقطہ نظر سے کسی بھی انسان کا خون خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم , کافر ہو یا مومن, سفیر ہو یا غیر سفیر , بادشاہ ہو یا غلام , مالک ہو یا مزدور غرضیکہ کوئی بھی ہو اس کا خون حلال نہیں ہے مگر صرف انھیں صورتوں میں جن میں ایک انسان کا قتل اسلام میں جائز ہے ۔ مثلا شادی کے بعد زنا کاری, اسلام قبول کرنے کے بعد ارتداد, کسی کو ناحق عمدا قتل کرنا, جاسوسی کرنا,  ڈاکہ ڈالنا,جادوگر بننا, اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کرنا  وغیرہ ۔ یہ وہ صورتیں ہیں جن میں ایک انسان کا خون حلال ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کورٹ اور قاضی کرے گا اور نفاذ حکومت کرے گی ۔ کسی شخص اور فرد کا کام فیصلہ کرنا یا سزا دینا نہیں ہے۔دلیل کے لیے "امن عالم اور اسلام "کا مطالعہ کیجیے۔

اسلام میں کسی بھی بے گناہ کو دوسرے کے گناہ کی سزا نہیں دی جا سکتی ہے ۔ قرآن کی آیت ہے:و لا تزر وازرۃ وزر أخرى(زمر/7), ایک دوسری آیت میں ہے: وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ (انعام /164)   اوریہ اسلام کا بہت ہی معروف و مشہور قانون ہے۔ آپ یہ بتلائیے کہ  اگر آپ کا کوئی قریبی یا دوست یا کوئی بھی شخص کوئی گناہ کرتا ہے اور اس کی سزا آپ کو دی جاتی ہے ؟ تو کیا یہ آپ کے ساتھ انصاف ہوگا؟ کیا رائے ہے ؟ اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم صرف اس وجہ سے آپ کو قتل کردیتا ہے کہ کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم کا خون بہایا ہے ۔ تو بتائیے کہ کیا ایسا کرنا انصاف ہے؟ کیا رائے ہے؟
     ہمیشہ یاد رکھیے کہ حالت جنگ کے احکامات الگ ہوتے ہیں اور حالات امن کے احکام الگ ہوتے ہیں۔ جب کسی جگہ کے  مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جنگ ہورہی ہے  تو اس صورت میں قتل کرنا , حملہ کرنا سب کچھ جائز ہوتا ہے ۔ فریقین ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی تاک میں ہوتے ہیں ۔اور حالات امن میں حملہ کرنا , قتل کرنا اور نقصان پہنچانا سب کچھ نا جائز ہوجاتا ہے۔

اور یہ بھی یاد رکھیے کہ جنگ جہاں اور جس علاقہ میں ہو رہی ہے اور جن کے خلاف ہو رہی ہے صرف وہیں پر اور انہیں کے خلاف جنگ ہوگی ۔ جنگ کو دوسری جگہ منتقل نہیں کیا جائیگا اور نہ  ہی ان لوگوں کے خلاف جنگ کی جائیگی جو اس جنگ میں شریک نہیں ہیں۔ ہاں اگر کوئی اسلامی مصلحت ہو تو اس کا فیصلہ فوج اور حکومت کرے گی یا اگر دشمن اس کو دوسری جگہ منتقل کرتا ہے تو وہاں بھی جنگ کی جائے گی۔ یہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ جنگ میں صرف انہیں لوگوں کو قتل کیا جائے گا جو جنگ میں عملا و فعلا شریک ہیں ۔ اگر جنگ میں کوئی کافر شریک نہیں ہے تو آپ اس کو قتل نہیں کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر دوران جنگ کوئی ایک ادنى مسلمان بھی کسی کافر کو پناہ دیتا ہے اور اس کو اپنے امان میں لے لیتا ہے تو پھر اس کافر کو بھی قتل کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔جیسا کہ ام ہانی نے فتح مکہ کے موقع پر اور حضرت زینب بنت النبی نے اپنے شوہر ابوالعاص بن ربیع  کو مدینہ میں پناہ دی تھی ۔ میں تفصیل سے نہیں لکھ رہا ہوں تاکہ آپ ان واقعات کو  خود دیکھیں ۔
      اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی ممالک میں رہنے والے کسی بھی  کافر کو قتل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اسلامی ملک کی پناہ و امان میں ہوتا ہے ۔ وہ وہاں اسلامی ملک کی اجازت سے داخل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کی حفاظت کی ذمہ داری نہ صرف مسلمان حکومت کی ہوتی ہے بلکہ تمام مسلمانوں کی ہوتی ہے۔

ہمارے نبی کے  زمانہ میں تقریبا سو سرایا و غزوات  وقوع پذیر ہوئے۔ان تمام کا آپ مطالعہ کیجیے ۔ آپ کے سامنےمذکورہ بالا  تمام حقیقتیں واضح ہوجائیں گی۔میں صرف چند مثال دیتا ہوں۔آپ یہ بتائیے کہ کیا کبھی ہمارے پیارے نبی نے ان کے خلاف جنگ کیا جو جنگ میں شامل نہیں  ہوتےتھے۔ مثلا جب جنگ بدر ہوئی تو یہ کفار قریش اور مسلمانوں کے درمیان ہوئی ۔ مسلمان اس میں فتح یاب ہوئے ۔ بدر کے مشرکین اس میں شریک نہیں تھے ۔کیا آپ نے ان کے خلاف کوئی کاروائی کی۔ حالانکہ اگر آپ چاہتے تو ان کے خلاف کارورائی کر سکتے تھے کیونکہ بدر بہت چھوٹی بستی تھی ۔ آبادی بھی  کم تھی اور وہ مشرک بھی تھے۔ معلوم ہوا کہ جو جنگ کرے گا اور اس میں شامل ہوگا اسی کے خلاف جنگ کی حائے گی ۔ دوسرے کے خلاف نہیں۔
     یہی حال آپ کی تمام جنگوں کا ہے ۔ ایک مثال اور دیتا ہوں۔ جب آپ ہجرت کرکے مدینہ ۃتشریف لے گئے تو وہاں یہودیوں کے تین قبیلے بنوقینقاع , بنونضیر اور بنو قریظہ آباد تھے ۔ تینوں سے آپ نے معاہدہ کیا ۔ اور تینوں مدینہ میں رہتے تھے ۔ سب سے پہلے بنو قینقاع نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ۔ ان کے خلاف  آپ نے جنگ کی ۔اور پھر ان کو مدینہ سے نکال دیا گیا۔ یہ شوال سن 2 ہجری کی بات ہے۔اب آپ یہ بتائیے کہ کیا آپ نے یہود کے دوسرے افراد یا قبیلوں کو بھی سزا دی ۔ اگر آپ چاہتے تو ان کوبھی سزا دے سکتے تھے کیونکہ وہ بھی یہودی تھے ۔ لیکن آپ نے ان کے خلاف اس وقت کوئی کاروائی نہیں کی ۔ معلوم ہوا کہ جو جنگ کررہا ہے اسی کے خلاف جنگ کی جائے گی اور جو شریک ہیں انہیں کو سزا دی جائے گی۔آپ نبی کریم کی جنگوں کا مطالعہ کر لیجیے اس سے تمام باتیں واضح ہوجائیں گی۔ اورپھر ہماری شریعت نے جنگ کے بھی قوانین متعین کر دئیے ہیں جن پر  ایک مسلمان کے لیے عمل کرنا ضروری ہے۔ مثلا جنگ میں کن کو قتل کرنا ہے کن کو نہیں ۔ مثلہ کرنا ہے کہ نہیں۔ وغیرہ
    اب میں محترم سائل کے چوتھے سوال کی طرف آتا ہوں جس میں سائل نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان مسلم ملک کے عوام سے وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے ان کے مفاد میں اپنی ریاست کے مفاد کے خلاف کام کر بیٹھے جسے وہ شرعی طور پر جائز سمجھتا ہو تو کیا ایسا شخص غدار ہے ؟ اور اس کی سزا کیا ہے؟ 

سب سے پہلے تو میں یہ واضح کر دوں کہ دینی و شرعی احکام کے جائز  وناجائز ہونے کا تعلق کسی انسان کی سمجھ سے نہیں ہےاور نہ ہی یہ کسی کی سمجھ سے جائز و ناجائز  ہوتے ہیں۔ جائز صرف وہی ہے جس کو شریعت جائز کہتی ہے اور نا جائز وہی ہے جس کو شریعت نا جائز کہتی ہے۔ کیونکہ  یہ کسی انسان کے بنائے ہوئے قوانین نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کی جاسکتی ہے ۔ ہماری شریعت کوئی خانہ ساز شریعت نہیں ہے۔ کسی چیز کو جائز یا ناجائز کرنے کا اختیار  تو ہمارے نبی کو بھی نہیں تھا ۔ اللہ کا فرمان ہے : یا ایہا النبی  لم تحرم ما احل اللہ لک    ..الخ  ( تحریم /1),  اور یہ واقعہ بہت  مشہور ہے۔معلوم ہوا کہ کسی کو بھی  یہ اختیار نہیں ہے۔

 اسی طرح شریعت کی مخالفت کرنا مسلم عوام کے ساتھ وفاداری نہیں ہے جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں بلکہ یہ تو  ان پر ظلم اور بے وفائی ہے۔کیونکہ  اللہ و اس کے رسول کے حکم کی مخالفت کبھی بھی وفاداری نہیں ہو سکتی ہے۔ نہ اپنے ساتھ اور نہ غیروں  کے ساتھ۔ شیطان اسی طرح الفاظ کو مزین کرکے لوگوں کو دھوکا میں ڈالتا ہے اور ان سے غلط کام کرواتا ہے۔اور انہیں سب الفاظ کا سہارا لے کے باطل  فرقے و گمراہ لوگ دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں اور ان کو اپنا شکار بناتے ہیں۔اور اس کام کے لیے غدار کا لفظ استعمال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ غداری کا  عام طور سےمطلب ہے حکومت و ملک کے خلاف کاروائی کرنا, ان کے خلاف لوگوں کو اکسانا وغیرہ۔ یہاں کسی نے ملک و حکومت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی ہے بلکہ قانون کو توڑا ہے لہذا وہ مجرم ہے غدار نہیں ہے۔لہذا اس سوال میں بھی وہ شخص مجرم ہے ۔ اس کی سزا وہی ہے جو شریعت میں متعین ہے ۔ اور اس بارے میں علماء و فقہاء کے درمیان بہت اختلاف ہے کہ کیا کسی مسلمان کو کسی کافر کے بدلے میں قتل کیا جائے گا کہ نہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ قتل کیا جائے گا اور کچھ کا کہنا ہے کہ نہیں قتل کیا جائے گا۔ سب کی اپنی أپنی دلیلیں ہیں۔ لیکن میری راے میں اس مسئلہ میں اس کی سزا قتل ہی ہے ۔ کیونکہ ایک سفیر کا حالت جنگ میں بھی  قتل کرنا جائز نہیں ہے اس طرح سے یہ جرم بڑا ہے لہذا اس کی سزا بھی بڑی ہونی چاہیے ۔                                                                                                        (جاری ہے)

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: