غیر مسلم سفراء کے قتل سے متعلق چار سوالوں کے جوابات -2

غیر مسلم   سفراء کے قتل سے متعلق چار سوالوں کے جوابات
                                                                                 دوسری قسط

      اب میں آخری پیرگراف پر آتا ہوں جس میں سوال کرنے والے نے قاتل ترک کے عمل کا موازنہ و مقارنہ
حضرت ابو جندل و ان کے ساتھیوں کی چھاپہ مار کاروائیوں سے کیا ہے ۔اور اس کے ذریعہ اس کے عمل کو جائز قرار دینے کی کوشس کی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ حضرت ابوجندل نے اسلامی ریاست کے لیے اسی طرح مشکلات پیدا کرنے کی کوشسیں کی جیسا کہ ترک پولس افسر نے روسی سفیر کو مار کے کیا۔
    سب سے پہلے تو یہ واضح کردوں کہ دونوں واقعات میں کسی طرح کی کوئی مشابہت نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سفیر  یا کسی بھی کافر کا قتل کرنا جائز ہے۔ در اصل یا تو سائل کو پورے واقعہ کا علم نہیں ہے یا اس نے جان بوجھ کر غلط استدلال کرنے کی کوشس کی ہے ۔ اس واقعہ سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ہر حال میں کافر کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کا پاس و لحاظ ضروری ہے خواہ اس کى وجہ سے ایک مسلمان کو دکھ و تکلیف ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے۔
      اور آپ نے یہ کیسے لکھ دیا کہ اس مسلمان گروہ نے  چھاپہ مار کاروائیاں کرکے بظاہر اسلامی ریاست کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کوشس کی ۔ اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو در اصل یہ لا علمی و نا سمجھی  کی دلیل ہے۔اور یہ ان مسلمانوں پر الزام ہے ۔ بھلا وہ  مسلمان کیسے سوچ سکتے تھے کہ اپنے عمل سے اسلامی ریاست کے لیے کوئی مشکل  کھڑی کریں۔آپ نے پورا واقعہ سمجھا ہی نہیں ہے۔ در اصل مکمل واقعہ اس طرح ہے ۔
    حضرت ابو جندل کا واقعہ صلح حدیبیہ کا ہے جو ذوالقعدہ سن 6 ھ میں پیش آیا ۔ جب صلح کےبنود لکھے جارہے تھے اس وقت ابو جندل مکہ سے بھاگ کے مسلمانوں کے پاس آگئے۔ ابھی معاہدہ مکمل طور سے لکھا نہیں جا چکا تھا۔ پھر بھی نبی کریم نے معاہدہ کی وجہ سے ان کو کافروں کے حوالہ کردیا ۔اس پر ابوجندل نے چیخ کے مسلمانوں سے کہا کہ اے مسلمانوں میں مسلمان ہوگیا ہوں کیا تم مجھے کافروں کے حوالہ کر دوگے؟ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ میرے ساتھ اہل مکہ کیا معاملہ کر رہے ہیں اور میں کتنے عذاب میں ہوں۔ یہ سن کر نبی کریم نے ان سے کہا کہ اے ابو جندل صبر کرو اور اللہ سے ثواب کی امید رکھو ان شاء اللہ اللہ تعالى تمھارے لیے اور تم جیسے تمام کمزور مسلمانوں کے لیے کوئی راہ نکالے گا۔ میں نے قوم سے صلح کرلی ہے لہذا میں غداری نہیں کر سکتا ہوں۔ لہذا کافر ان کو مکہ لے گئے ۔
     جبکہ حضرت ابو بصیر کا واقعہ ہے کہ وہ مکہ سے بھاگ  کے مدینہ آئے۔اس وقت صلح حدیبیہ کا زمانہ تھا۔ نبی کریم مدینہ واپس آچکے تھے ۔ لہذا ابو بصیر کو واپس لینے کے لیے مکہ سے دوکافر مدینہ آئے ۔ اور انھوں نے صلح کے مطابق ابو بصیر کو حوالہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ لہذا نبی نے ان کو بھی مکہ کے ان دو کافروں کے حوالہ کردیا۔ اور جب  ابوبصیر ان دو آدمیوں کے ساتھ ذوالحلیفہ پہنچے تو ایک کو قتل کردیا ۔  لہذا اس کا دوسرا ساتھی ڈر کے مارے بھاگ کے رسول کے پاس ڈارکٹ مسجد میں پہنچا۔ نبی کریم نے جب اس کو دیکھا تو فورا آپ بھانپ گئے اور فرمایا کہ یہ آدمی خوف زدہ ہے اس نے کوئی خوفناک چیز دیکھی ہے۔ پھر اس کافر نےآپ سے پورا ماجرا بیان کیا اور کہا کہ میرا ساتھی قتل کردیا گیا ہے اور میں بھی قتل کردیا جاؤں گا۔اسی بیچ ابو بصیر آگئے ۔ اور انہوں نے نبی کریم سے کہا :  اللہ نے آپ کے عہد و پیمان کو پورا کردیا کیونکہ آپ نے مجھ کو ان کے حوالہ کردیا  اور اللہ نے مجھ کو ان لوگوں سے نجات بخشی۔ اور مزید فرمایا: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَرَفْتُ أَنِّي إِنْ قَدِمْتُ عَلَيْهِمْ فَتَنُونِي عَنْ دِينِي فَفَعَلْتُ مَا فَعَلْتُ وَلَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ عَهْدٌ وَلَا عَقْدٌاور اے اللہ کے رسول مجھے معلوم تھا کہ اگر میں وہاں گیا تو دین کی وجہ سے  یہ لوگ مجھ کو آزمائش میں ڈالیں گے لہذا جو مجھے کرنا تھا وہ میں کر گذرا کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی عہد وپیمان نہیں ہے۔  
   یہ سن کر نبی کریم نے  فرمایا: بہت تعجب کی بات ہے اگر اس کے معاون و مد گار ہوتے  تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دیتا ۔ ابو بصیر نے جب آپ سے یہ سنا تو وہ سمجھ گئے کہ نبی کریم پھر مجھ کو کافروں کے حوالہ کر دیں گے۔ لہذا انہوں نے مدینہ چھوڑ دیا اور وہاں سے دو سو پچاس کلو میٹر دور العیص میں جاکر ڈیرا ڈالا۔
     اس کے کچھ دنوں کے بعد ابو جندل أپنے کچھ مسلمان ساتھیوں کے ساتھ دوبارہ بھاگنے میں کامیاب ہو گئے ۔ تو وہ بھی ابو بصیر سے جاکے مل گئے ۔ کیونکہ ان سب کو معلوم تھا کہ اگر مدینہ گئے تو نبی کریم کبھی بھی معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے ہیں ۔ اور ہم سب کو واپس کر دیں گے۔ لہذا اس کے بعد کوئی بھی مسلمان مکہ سے نکلتا تو وہ العیص جلا چاتا یہاں تک کہ دھیرے دھیرے مسلمانوں کا ایک گروپ بن گیا جن کی تعداد کے بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے ۔ کچھ نے ان کی تعداد تین سو تک لکھی ہے۔ خیر اب ان مسلمانوں نے کفار قریش کے تجارتی قافلوں کو اپنا نشانہ بنایا اور ان پر حملہ شروع کردیا۔
    یہ ہے پورا واقعہ۔آپ خود فیصلہ کیجیے کہ کیا ان دونوں میں کسی طرح کی کوئی مشابہت ہے؟ ایک طرف سفیر کا قتل ہے اور دوسری طرف ایک حربی کافر کا قتل  اور چھاپہ مار کاروائیاں ہیں۔اور اس کا جواب خود اسی واقعہ میں پوشیدہ ہے ۔ حضرت ابوبصیر نے بیان کردیا کہ انہوں نے کافر کو کیوں قتل کیا کیونکہ ان کا کوئی عہد و پیمان یا صلح مکہ والوں کے ساتھ نہیں تھا۔اسی لیے نبی کریم نے ان کو کوئی سزا نہیں دی۔ صرف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔اسی طرح مسلمانوں کے اس پورے گروپ کا مکہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا۔وہ تو ان کے ساتھ حالت جنگ میں تھے ۔ لہذا چھاپہ مار کاروائیاں ان کے لیے جائز تھیں۔ صلح تو سلطنت مدینہ اور مکہ کے درمیان ہوئی تھی۔ اب اگر یہ لوگ مدینہ میں رہ کر کوئی بھی کاروائی کرتے تو پھر سزا کے مستحق ہوتے ۔
   اور پھر ابوبصیر اور ابو جندل نے اسلامی ریاست کے لیے کوئی مشکل پیدا نہیں کی ۔ بلکہ ان کی یہ کاروائیاں اسلام اور مسلمانوں کے لیے باعث رحمت تھی۔ کیونکہ ان کی کاروائیوں سے تنگ آکر اہل مکہ نے نبی کریم سے سفارش کی اور گذارش  کہ آپ ان لوگوں کو مدینہ بلا لیجیے ۔ہم کوئی اعتراض نہیں کریں گے اور ہم اس بند سے دستبردار ہوتے ہیں۔لہذا یہ تمام مسلمان العیص سے مدینہ منتقل ہوگئے۔
   اب خود فیصلہ کیجیے کہ کیا دونوں  واقعات میں کسی طرح کی کوئی مشابہت پائی جاتی ہے۔لہذا کسی بھی واقعہ کو مکمل جانے ہوئے بغیر اس کو کسی دوسرے واقعہ سے مشابہت دینا اور اس سے غلط استدلال کرنا در اصل یہی گمراہی اور داعشی بننے کا سبب ہوتا ہے۔ اور اسی کا فائدہ اٹھاکر گمراہ فرقے اورافراد  جاہلوں کو اپنا شکار بناتے ہیں ۔
  اب آخر میں ایک بات اور عرض ہے کہ اسلام صلح و امن کا مذہب ہے ۔ جنگ و جدال, قتل و خونریزی  اور وہ بھی بلاوجہ اسلامی طبیعت کے بالکل منافی ہے۔نبی کریم کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی بھی آپ نے جنگ کی ابتدا نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ کافروں نے ہی آپ کے اوپر حملہ کیا۔یا اگر آپ کو اطلاع ملتی کہ فلاں جگہ کے کافر لوگ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تو اس سے پہلے کہ وہ لوگ مدینہ پر حملہ آور ہوں  آپ فوج بھیج کر ان پر کاروائی کرتے ۔کبھی بھی بلاوجہ آپ نے حملہ نہیں کیا ہے۔اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اللہ اپنے نبی کو حکم دیتا ہے: َإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ(انفال /61) کہ اگر وہ لوگ صلح کرنا چاہتے ہیں تو آپ بھی ان سے صلح کر لیجیے اور اللہ پر توکل کیجیے ۔بلا شبہ وہ سننے والا جاننے والا ہے۔یہی نہیں بلکہ اگر ایک حربی کافر  امن طلب کرتا ہے تو اس کو صرف امن ہی نہیں دیا جائے گا بلکہ اس کو اس کی محفوظ جگہ پر حہنچایا جائے گا۔وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ (توبہ/6) معلوم ہوا کہ جنگ و جدال اسلام کی طبیعت و فطرت ہی نہیں ہے ۔وہ تو مجبوری کی حالت میں بوقت ضرورت اس کے استعمال کی اجازت دیتا ہے ۔ کیونکہ جنگ بہر حال جنگ ہے ۔ یہ تو تباہی و بربادی مچاتا ہے ۔ لہذا اگر جنگ کے بجائے وہی مقصد صلح سے حاصل ہوجائے تو اسلام صلح کا طرفدار ہے ۔ کیونکہ صلح کے جو فوائد ہیں وہ جنگ کے بالکل نہیں ہیں ۔ اسی وجہ سے آپ نے صلح حدیبیہ کیا ۔ جب کہ اس کے بعض بنود بظاہر مسلمانوں کے حق میں نہیں تھے ۔ لیکن اس کا فائدہ جان کر آپ کو تعجب ہوگا کی صلح کے تین سال کے عرصہ میں جتنے لوگ اسلام میں داخل ہوئے  اتنے لوگ 19 سال میں نہیں داخل ہوئے تھے۔
     اسی وجہ سے آپ نے مسلمانوں کو دشمن کے ساتھ جنگ کی تمنا کرنے سے   بھی روکا ہے: عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لا تمنوا لقاء العدو فإذا لقيتموهم فاصبروا  وفي الرواية الأخرى : لا تتمنوا لقاء العدو واسألوا الله العافية فإذا لقيتموهم فاصبروا واعلموا أن الجنة تحت ظلال السيوف .(بخاری و مسلم) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: دشمن سے  جنگ کی تمنا مت کرولیکن اگر ان سے تمھاری جنگ ہوجائے تو صبر کرو۔ اور دوسری روایت میں ہے۔ دشمن سے جنگ کی تمنا مت کرو۔ اللہ سے عافیت  کا سوال کرو۔لیکن اگر ان کے ساتھ جنگ ہوجائے تو صبر کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ میں ہے۔
    معلوم ہوا کہ اسلام جنگ نہیں صلح چاہتا ہے ۔ لڑائی نہیں امن چاہتا ہے۔اسلام ایک ایسا سماج و معاشرہ چاہتا ہے جو بوقت مجبوری جنگ کا فیصلہ کرے۔در اصل اسلام کا خمیر ہی سلم ہے ۔ اس کی طبیعت و فطرت ہی  امن و آشتی ہے۔اور یہ  ايك  ناقابل ترديد حقيقت  ہے کہ دنیا كا کوئی بھی  دین اسلام سے بڑھ کر امن و صلح کا داعی نہیں ہے۔اسی لیے اس نے اپنے ماننے والوں سے کہا کہ دشمن سے جنگ کی تمنا مت کیا کرو۔یہ تو جھوٹ میں اسلام کو بدنام کیا جاتا ہےکہ وہ قتل و خونریزی کا دین ہے۔تلوار و تفنگ کا دین ہے۔اسلام میں رواداری  بالکل نہیں ہے۔اسلام کافروں کو اس دنیا میں زندگی گذارنے کا حق نہیں دیتا ہے  وغیرہ ۔
    ایک بات اور:  اسلام ہم سے کہتا ہے کہ غیروں نے ہم کو جھوٹ میں بدنام کیا ۔ لیکن وہ تو غیر ہیں ۔ ان سے کیا شکایت کروں۔ شکایت تو مجھے اپنوں سے ہے۔اپنے  مسلمانوں سے ہے جو نہ صرف اسلامی  أحکام و تعلیمات پر عمل نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کی بے جا تاویل اور غلط تفسیر کرتے ہیں۔اور جنھوں نے ہم کو أپنے غیر اسلامی و غیر شرعی افعال کے ذریعہ غیروں سے زیادہ بدنام کیا ۔شرمندہ کیا اور مجھ کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔کیا تم نہیں جانتے  کہ تمہارے اسلاف نے صرف اور صرف  اسلامی تعلیمات پر عمل کرکے اس دنیا میں باعزت زندگی گذاری تھی ۔ لہذا اگر تم بھی عزت ووقار  سطوت و غلبہ  کے ساتھ اس دنیا میں زندگی گذارنا چاہتے ہو تو اپنے اسلاف کی طرح اسلامی احکام و تعلیمات پر عمل کرو۔اس کو اپنی روز مرہ کی زندگی کا معمول بنا لو۔ ورنہ تم خود اپنی  بد اعمالیوں  , گناہوں  اور معصیتوں کے نتیجہ میں ایسے ہی اس دنیا میں ذلیل و خوار , محتاج و دست نگر اور دوسری قوموں کے رحم و کرم پر رہوگے۔تمھارا قتل ہوتا رہے گا ۔ خون بہتا رہے گا۔عزتیں لٹتی رہیں گی۔املاک تباہ و برباد ہوتے رہیں گے لیکن تمھاری کوئی قیمت  نہیں ہوگی اور نہ ہی  تمھارا کوئی پرسان حال ہوگا۔
اسلام ہم سے یہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے۔ کیا ہم نصیحت حاصل کرنے والے ہیں۔
     مضمون کے آخر میں محترم قارئین سے گذارش ہے کہ آپ اپنی قیمتی آراء و مشوروں سے ضرور نوازیں۔ تعلیق  کا بھی کالم کھلا ہواہے۔ کسی بھی طرح کی کوئی بھی غلطی ہو آگاہ فرمائیں ۔ میں آپ کا بے حد ممنون و مشکور ہوں گا۔ اللہ آپ کو بہترین اجر سے نوازے۔ بہت بہت شکریہ
                                  وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: