اسلام میں رسوم و رواج اور عادات و تقالید کا حکم ( پہلی قسط)

 <script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4702673796649958"

     crossorigin="anonymous"></script>

           اسلام میں رسوم و رواج اور عادات و تقالید کا حکم  

 Ruling on Customs, Rituals & traditions in Islam 

                                                                                                                                                                                                                                                                                     پہلی قسط

بلا شبہ دور حاضر کے مسلم سماج میں کئی قسم کے بہت زیادہ  رسوم و رواج , عادات و تقالید و اوہام و خرافات  پائے جاتے ہیں جنہوں نے گذرتے ہوئے زمانہ کے ساتھ سماج کو اپنے ظالم چنگل میں جکڑ لیا ہے ۔  یہ سماج کا جزء لا ینفک بن چکے ہیں ۔بہت سارے مسلمان فرائض  میں تو کوتاہی کرتے ہیں لیکن رسوم و رواج کی ادائیگی میں قطعا کوئی کوتاہی نہیں کرتے ہیں۔کیا مجال ہے کہ کوئی رسم و رواج فوت ہوجائے ۔ یہ ان کے لیے دین سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ زندگی کا کوئی  بھی گوشہ اس سے مستثنى نہیں ہے ۔یہ انسان کے  قبل از پیدائش سے شروع ہوکر بعد از مرگ تک جاری رہتے ہیں۔جو  شخص ان مختلف رسوم و رواج کو جاننا چاہتا ہے وہ پروفیسر شاہد حسین رزاقی کی کتاب " پاکستانی مسلمانوں کے رسوم و رواج " کا مطالعہ کرے ۔اس میں زندگی کے ہر رسوم و رواج کا ذکر ہے اور اس بابت یہ بہت مفید کتاب ہے۔ اسی طرح عربی زبان میں  میرے  ماسٹر کا مقالہ " حرکۃ الامامین احمد بن محمد عرفان والشاہ محمد اسماعیل بن عبد الغنی الدھلوی وآثارہا على المجتمع الاسلامی فی الہند"  میں تمہید کے"الاوضاع الاجتماعیۃ  " یعنی سماجی حالات میں ان     کا مطالعہ کرسکتا ہے ۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ رسوم و رواج کسی خاص علاقہ یا سماج تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ  دنیا کے ہر گوشے و تمام مسلمان معاشرے تک پھیلا ہوا ہے  ۔ دنیا کا کوئی بھی علاقہ یا سماج اس سے اچھوتا نہیں ہے ۔ ہاں یہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ اور ایک سماج سے دوسرے سماج  میں  کچھ  جدا و رمختلف ہوتے ہیں ۔ان کی نوعیت الگ  ہوتی ہے ۔ اسی طرح کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہرجگہ و ہر سماج میں ان کا وجود ہے۔انہیں رسوم و رواج, عادات و تقالید کا اسلام کی روشنی میں اس مضمون میں حکم بیان کیا جا رہا ہے ۔

برادران اسلام : مسلمان سماج و معاشرہ میں پائے جانے والے رسوم و رواج اور عادات و تقالید کو عمومی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

 وہ رسوم و رواج جو دین و عبادت سمجھ کر ثواب کی نیت سے انجام دئیے جاتے ہیں۔ مثلا عید میلاد النبی منانا, رجب کے کونڈے, فاتحہ , شعبان میں حلوہ بنانا,وفات کے بعد کے بہت سارے رسو م و رواج جیسے سوئم , چہلم و برسی وغیرہ

وہ رسوم و رواج اور عادات و تقالید جو صرف بطور عادت انجام دئیے جاتے ہیں ۔ دین و عبادت سمجھ کر ثواب کی نیت سے نہیں انجام دئیے حاتے ہیں مثال کے طور پر شادی بیاہ کے رسوم و رواج :بارات , منگنی , جہیز وغیرہ

پہلی قسم کے رسوم و رواج کا حکم

بلا شبہ پہلی قسم کے رسوم و رواج اسلام میں سراسر ناجائز و حرام ہیں۔ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کو دین و عبادت سمجھ کر انجام دینا ہلاکت و بربادی کا سبب ہے۔ اس سے ثواب کے بجائے گناہ ملتا ہے۔ یہ تمام رسوم و رواج  بدعت میں داخل ہیں  کیونکہ اسلام  میں ہر وہ عمل بدعت ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ نبی کریم اور اسلاف سے ثابت نہیں ہے۔

حرمت کے دلائل:

1-     پہلی دلیل  یہ حدیث ہے : عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ   أخرجه: البخاري (2697)، ومسلم (1718)، واللفظ له.
ام المؤمنین حضرت عائشہ کی روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:جس نے کوئی ایسا کام کیا جس کا حکم ہم نے نہیں دیا ہے تو وہ  نا مقبول ہے ( بخاری و مسلم )۔ حضرت عائشہ کی  ایک دوسری روایت میں ہے: من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد ( بخاری و مسلم)   یعنی جس نے ہمارے اس امر یعنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں  سے نہیں ہے تو وہ قابل رد ہے۔

معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا کوئی بھی  دینی و شرعی کام  جس کا ثبوت قرآن و سنت میں نہیں ہے ۔ جس کا اللہ و اس کے رسول نے حکم نہیں دیا ہے تو وہ عمل بدعت ہے لہذا ناقابل قبول و مردود ہے۔

2-   اس کے علاوہ عبادا ت سب توقیفی ہیں یعنی اس کا طریقہ , شکل و صورت , حالت  و وقت ,  سب  اللہ و اس کے رسول پر موقوف ہیں ۔  ہمیں اللہ کی عبادت اسی طرح کرنی ہے جس طرح اس نے حکم دیا ہے۔کوئی بھی شخص اس میں أپنی طرف سے کسی بھی طرح کی کوئی کمی یا زیادتی نہیں کر سکتا ہے۔یہ اختیار کسی کو بھی نہیں دیا گیا ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا ذرہ برابر اعتبار نہیں ہوگا۔وہ عبادت نہیں بلکہ بدعت ہوگی اور رحمت کے بجائے زحمت ہوگی۔ ایسا عمل سراسر ناجائز و حرام ہوگا۔مثال کے طور کوئی پانچ نماز کے بجائے چھ نماز ادا کرتا ہے یا مغرب کو تین کے بجائے دو رکعت پڑھتا ہے یا رمضان کا فرض روزہ اس کے علاوہ کسی دوسرے مہینہ میں رکھتا ہے۔ یہ سب ناجائز و حرام ہے اور اس تبدیلی کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔

3-   حرمت کی تیسری دلیل یہ ہے کہ  اللہ تعالى نے قرآن مجید میں صاف صاف اعلان کردیا ہے : الیوم اکملت لکم دینکم و أتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا(مائدہ/3) کہ آج ہم نے  دین اسلام کو  تمہارے لیے مکمل کردیا , اور اپنی نعمت تمہارے اوپر کامل کردی اور اسلام کو از روئے دین تمہارے لیے پسند کرلیا ۔ اب اگر کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ فلاں عمل عبادت ہے , فلان کام ثواب کا ہے ۔ تو اس کا صاف و واضح مطلب ہے کہ وہ قرآن کو جٹھلا رہا ہے ۔ اللہ و اس کے رسول کی تکذیب کر رہا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ دین ناقص ہے۔ معاذ اللہ رسول نے کامل دین ہم تک نہیں پہنچائی۔کیا کوئی بھی سلیم العقل شخص اس کا اعتراف کرے گا۔ہرگز نہیں۔ معلوم ہوا کہ کوئی بھی نیا عمل مقبول نہیں ہے۔

4-   حرمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ  ہم  قولا تو نہیں البتہ فعل و عمل کے اعتبار سے دعوى کرتے ہیں کہ ہم أپنے اسلاف سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہیں۔بلا شبہ کوئی بھی بدعتی یا  غیر ثابت عمل کو انجام دینے والا  شخص  أپنی زبان سے تو یہ دعوی نہیں کرتا ہے لیکن اپنے فعل و عمل سے یہی دعوی کرتا ہے۔کیونکہ ہمارے اسلاف نیک اعمال  کے ہم سے  کہیں زیادہ  کئی گنا حریص تھے۔ اگر یہ نیک عمل ہوتا تو آپ حضرات  اس پر ضرور عمل کرتے ۔ اور یہ بہر صورت  ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم نیکیوں و نیک اعمال میں أپنے اسلاف سے بڑھے ہوئے ہوں۔ لہذا جس عمل کو ہمارے اسلاف نے نہیں کیا ہے وہ ہمارے لیے جائز نہیں ہو سکتا ہے۔

       ان دلائل سے پہلی قسم کے رسوم و رواج کے ناجائز و حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ہے ۔لہذا ہم مسلمانو کو ایسے رسوم و رواج , عادات و تقالید سے بچنا ضروری ہے ورنہ دین و دنیا دونو میں ہم خسارہ و نقصان میں ہوں گے ۔ اللہ تعالى ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

دوسری قسم کے رسوم و راج کا حکم دوسری قسط میں بیان کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: