مسلمانو کی عقلوں پر ماتم

مسلمانو کی عقلوں  پر ماتم

کیا موجودہ حالات میں یاکبھی  بھی ہم مسلمانو کے لیے یہ بحث موزوں و مناسب ہے کہ فلسطین کے ضائع ہونے کا ذمہ دار کون ہے؟  ملک اسرائیل کو کس نے  قائم کیا ؟ پھر اس کی وجہ سے آپس میں ایک دوسرے پر الزام لگانا, نفرت و کراہیت پھیلانا ,  تعصب کرنا , حقائق کو توڑ مروڑ کے پیش کرنا اور واقعات کو سیاق سباق سے الگ کرکے اس انداز میں پیش کرنا کہ مخالف کی بد نامی ہو کہاں کی دانشمندی ہے۔ ماضی میں جو ہوچکا سو ہوچکا ۔ایک دوسرے پر بے بنیاد الزام لگا کر اور بیکار  چیزوں پر بحث کرکے ہم ماضی کی اپنی غلطیوں کو نہیں سدھار سکتے ہیں  اور نہ فلسطین کو واپس لے سکتے ہیں۔

 دراصل فلسطین کو ضائع کرنے اور اسرائیل کو قائم کرنے کی ذمہ داری اس وقت کے  تمام مسلمان حکمرانو و ممالک  کی ہے ۔ ہر کوئی اس کا ذمہ دار ہے ۔ کوئی کم کوئی زیادہ۔ لیکن اس کا اصل  و حقیقی ذمہ دار تو انگریز اور اس وقت کی بڑی طاقتیں ہیں کیونکہ جنگ عظیم اول(1914-1918ع)  کے نتیجہ میں  خلافت عثمانیہ ختم ہوچکی تھی, فلسطین پر بریطانیہ نے جولائی 1920 ع  میں قبضہ کر لیا تھا جس نے یہودیوں سے فلسطین کو ان کا قومی وطن بنانے کا وعدہ کیا تھا ۔اور یہ قبضہ اسی لیے کیا  تھا تاکہ بعد میں حالات کو یہودی سلطنت و  حکومت کے لیے سازگار بنانے کے بعد  فلسطین حسب وعدہ یہودیوں کو دیا جا سکے۔اور اس پر اس نے عمل بھی کیا اور 1948 ع میں فلسطین کو یہود کے حوالہ کردیا اور ایک نئے ملک کو قائم کردیا۔ ادھر ترکی  میں 1924 ع میں  کمالی یہودی حکومت قائم ہوچکی تھی جو انگریزوں کی وفادار تھی لہذا وہ اسرائیل کے ساتھ تھی, اسی لیے اس نے سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم بھی کیا تھا۔ لیکن اتراک مسلم قوم نے کبھی بھی اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا اور نہ اس کی حمایت  کی۔  وہ تو بے چارے مجبور و بے بس تھے جیسے ہم آج کے مسلمان ہیں ۔

 جہاں تک عربوں کی بات ہے تو وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں  اور اتراک سے زیادہ ذمہ دار ہیں کیونکہ انہوں نے انگریزوں کے بہکاوے میں آکر  پہلی جنگ عظیم کے دوران  1916 سے لیکر 1918 ع تک  خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی اورکھل کر   انگریزوں کا مکمل ساتھ دیا  اور خلافت عثمانیہ کی شکست کا ایک  سبب بنے ۔اور پھر ان کی وفاداری کے بدلے میں انگریزوں نے ان کو ان کے ملکوں پرقبضہ کر کے اور اور اسرائیل کو فلسطین میں آباد کرکے اس کا بہترین صلہ دیا۔ عرب بھی اس قابل نہیں تھے کہ وہ اپنے آقا کے حکم کی مخالفت کرسکتے اور اسرائیل کے قیام کو روک سکتے ۔

معلوم ہوا کہ  اسرائیل کو در اصل انگریزوں نے قائم کیا ہے ۔ عرب و اتراک دونوں ان کے سامنے بے بس تھے بلکہ دونو انگریزوں کے وفادار دوست تھے,  ان میں اتنی طاقت و قوت  نہیں تھی کہ وہ  انگریزوں کو زبردستی فلسطین کو یہودیوں کے حوالہ کرنے سے منع کر سکیں ۔ در حقیقت  دور زوال میں جتنے  بھی نئے ممالک قائم ہوئے ہیں سب سپر پاورس کی دین ہیں  حتى کہ 2011 ع میں سوڈان کی تقسیم اور اور ایک نئے نصرانی ملک جنوبی سوڈان کا قیام بھی سپر پاورس کی دین ہے۔ دور زوال میں مسلمان کب اس لائق تھے کہ وہ نیا ملک بنا سکیں۔یہ کام تو در اصل  انگریزوں نے  پوری دنیا میں کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ  انگریزوں  نے عربوں و ترکوں کو آپس میں لڑایا۔ ان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت , کراہیت اور تعصب کا بیج بویا۔دیکھیے ایک انگریز اس سلسلے میں کیا کہتا ہے:----

 انگریز کرنل سر تھامس اڈوارڈ جو عربین لورنس کے نام سے مشہور ہے اور جس نے خلافت عثمانیہ کے خلاف عربوں کی قیادت کی وہ کہتا ہے : یقینا ہمارا بنیادی مقصد اسلامی اتحاد و اتفاق کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ اور عثمانی سلطنت کو شکست دینا اور اس کو برباد کرنا ہے۔مزید کہتا ہے کہ اگر ہم عربوں کو بھڑکانے  میں  کامیاب ہوگئے کہ وہ اچانک اور تشدد کے ذریعہ أپنے حقوق کو عثمانی خلافت سے چھین لیں تو یقین جانئے کہ ہم نے ہمیشہ ہمیش کے لیے خطرہ اسلام کا خاتمہ کردیا۔اور ہم نے مسلمانو کو آپسی خانہ جنگی پر مجبور کردیا۔

 انگریزوں نے اس  پالیسی کو عملی جامہ پہنا کے  اس کا بھر پور  فائدہ اٹھایا  اور بظاہر  اپنا کام کرکے نکل لیے  ۔ لیکن اتراک و عرب سمیت تمام  مسلمانو میں  ان کے ایجنٹ ,  ذہنی غلام و چمچے اور ان کے ٹکڑوں پر پلنے والے اب بھی ہر جگہ موجود ہیں اور اپنا کھیل بہت ہی آسانی سے کھیل رہے ہیں,   اور  بہت سارے مسلمان جانے انجانے میں ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔

لہذا  جو کام ایک صدی پہلے انگریز خود کر تے تھے وہ اب نام نہاد مسلمان کر رہے ہیں اور ہمارا دشمن دور بیٹھ کر تماشا دیکھ رہا ہے اور خوش ہورہا ہے اور ہم ابھی تک اسی میں الجھے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کس نے قائم کیا؟

 مسلمانو : یہ وقت  اس بحث کا  نہیں ہے کہ ذمہ دار کون ہے, کس کی غلطی سے ایسا ہوا ہے؟اگر ہم اسی میں الجھے رہے تو پھر ہم کچھ بھی  نہیں کر سکتے ہیں ۔  یہ وقت تو ماضی کی غلطیوں سے سبق لے کر اس کو سدھارنے کا ہے ۔ یہ وقت اس بحث کا ہے کہ ہم فلسطین کو کس طرح واپس لے سکتے ہیں؟ ہم مسجد اقصى کو کس طرح آزاد کراسکتے ہیں؟ ہم آپس میں کس طرح اتفاق و اتحاد کرکے ایک اسلامی ملک قائم کرسکتے  ہیں یا کم از کم ایک متحدہ  خارحہ پالیسی اپنا سکتے ہیں؟ ہم کس طرح دنیا کے دیگر علاقوں میں اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں ؟ ہم کس طرح اپنی دفاعی و جنگی صلاحیتوں کو ترقی دے سکتے ہیں ؟ ہم کس طرح اپنی صنعتی تنزلی کو دور کرسکتے ہیں ؟ ہم کس طرح مسلمانو کو اسلام سے قریب کر سکتے ہیں اور ان کو باعمل مسلمان بنا سکتے ہیں ؟ ہم کس طرح غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں   وغیرہ

 لیکن افسوس صد افسوس ہم ان کے بجائے بیکار و حقیر بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں ہماری عقلوں پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ سچ فرمایا علامہ اقبال نے:

                           قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے

                         تب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے

بلا شبہ عرب و اتراک دونو مسلمان ہیں۔ دونو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں ۔دونو نے اسلام کی زبردست خدمت کی ہے۔ غلطیوں سے کوئی مبرا نہیں ہے ۔ ہمارے لیے دونو ہی قابل قدر و محترم ہیں۔لیکن المیہ یہ ہے کہ عرب و اتراک   دونو میں کچھ جاہل , متعصب , انگریزوں کے ایجنٹ ,قوم پرست  اور خبیث لوگ موجود ہیں جو نفرت و کراہیت پھیلانے کا کام کرتے ہیں , لہذا  عربی و ترکی کھیل کا حصہ مت بنیں۔ دشمنوں کی سازشوں کو پہچانیں اور ہوشیار  رہیں۔  وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

2 التعليقات:

أزال المؤلف هذا التعليق.