دوسروں کو تکلیف و نقصان نہ پہنچانا بھی باعث اجر و ثواب ہے

                       دوسروں کو تکلیف و نقصان نہ پہنچانا بھی باعث اجر و ثواب ہے
ہم میں سے ہر مسلمان کی کوشس یہی ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ذات سے اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو زیادہ سے زیادہ  مادی یا معنوی کسی بھی طرح کا نفع و فائدہ  پہنچائے ۔ جس کے بہت زیادہ طریقے ہیں  اور جس کا ذکر امام نووی نے اپنی مشہور کتاب ریاض الصالحین کے ایک باب"  فی بیان کثرۃ طرق الخیر" میں کیا ہے۔
اب اگر ہم اپنی ذات سے کسی انسان یا حیوان کو کسی بھی  طرح کا کوئی مادی یا معنوی نفع یا فائدہ نہیں  پہنچا سکتے ہیں۔ اس سے عاجز ہیں ۔ تو کم از کم ہمیں اس کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچانے سے باز رہنا چاہیے۔ اس کو کسی بھی طرح کی کوئی  تکلیف نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ بھی صدقہ ہے ۔ اور باعث اجر و ثواب ہے۔جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔عَنْ أَبِي ذَرَ رضي الله عنه قَالَ:   قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّهِ، أَيّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الإِيمَانُ بِالله وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِهِ. قَالَ: قُلْتُ: أَيّ الرّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا، وَأَعْلاَهَا ثَمَنا. قَالَ قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَفْعَلْ؟ قَالَ: تُعِينُ صَانِعا أَوْ تَصْنَعُ لأَخْرَقَ. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ عَنْ بَعْضِ الْعَمَلِ؟ قَالَ: تَكُفّ شَرّكَ عَنِ النّاسِ، فَإِنّهَا صَدَقَةٌ مِنْكَ عَلَى نَفْسِكَ(  بخاری و مسلم)
 ترجمہ:حضرت ابوذر کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے  پوچھا کہ اےرسول اللہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے جواب دیا: اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔وہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے سوال کیا کہ کون سا گردن آزاد کرنا سب سے افضل ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ گردن جو اپنے مالک کے نزدیک سب سے بہتر اور قیمتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے  کہا کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں؟ تو آپ نے کہا : کسی  کاریگر کی مدد کر دو یا کسی غیر ماہر پیشہ ور کی مدد کردو  یعنی کسی مزدور یا کسی بھی پیشہ ور  کے کام میں ہاتھ بٹادو۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر کہا کہ اے اللہ کے رسول مجھے بتلائیے  کہ اگر میں کوئی کام بھی نہیں کر سکتا ہوں ۔تو آپ نے جواب دیا : لوگوں کو اپنی ذات کے شر سے محفوظ رکھو یہی تمہارے لیے اپنی ذات کے اوپر صدقہ ہے ۔
معلوم ہوا کہ دوسروں کواپنی زبان , ہاتھ ,  پیر  و  نگاہ  سے   تکلیف نہ  پہنچانا  اور غیروں کو اپنی ایذاء و شر سے بچا کے رکھنا خود اپنی ذات کے اوپر صدقہ ہے ۔جو باعث اجر و ثواب ہے ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کی بہت ساری شکلیں ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے جس کا حصول نہایت آسان ہے اور جس میں کوئی محنت و مشقت نہیں ہے  اور یہ بالکل فری میں ہے۔
اب غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آج کے دور میں کتنے مسلمان بھائی ہیں جو دوسروں کو کسی بھی طرح کاکوئی نفع یا فائدہ نہیں پہنچا پاتے ہیں ۔ اور اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے ہیں لیکن دوسروں کو نقصان پہنچانے میں  پیش پیش رہتے ہیں۔اور اس کے لیے مختلف قسم کے حیلے و بہانے اختیار کرتے ہیں۔بہت زیادہ جوڑ توڑ اور جدو جہد کرتے ہیں۔بعض تو محض اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ اگر میرا فائدہ نہیں ہواہے تو دوسرے کا فائدہ کیوں ہو۔ ہم اس کا فائدہ قطعا نہیں ہونے دیں گے۔ غرضیکہ  اس طرح کے لوگ ہر زمانہ و ہر جگہ پائے جاتے رہے ہیں۔ دور حاضر میں تو ان کی کمی نہیں ہے۔
اس طرح کے لوگوں کو اس حدیث رسول سے سبق لیتے ہوئے دوسروں کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے باز آجانا چاہیے ۔ کیونکہ اس میں ان کا ڈبل نقصان اور دوہرا خسارہ ہے ۔ ایک تو دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا نقصان جو گناہ ہے ۔ دوسرے اپنی ذات پر  ایک بہت ہی آسان صدقہ سے محرومی  جو باعث اجر و ثواب ہے۔اللہ تعالی ہم تمام مسلمانوں کواس آسان نیکی کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
                    وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب ا لعالمین    


التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: